Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ پشاور میں یا د گار خطبے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ پشاور میں یا د گار خطبے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج پشاور میں میرے سُنے ہوئے یا د گار خطبے یا د آرہے ہیں یا د آنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے خطبے بہت کم سننے کو ملتے ہیں میں نے پشاور میں نما ز جمعہ اور عیدین کے جوخطبا ت سُنے سب یا د گار تھے مسجد دوریش میں مولانا حسن جا ن کا خطبہ، مسجد مہا بت خان میں مو لا نا مبارک شاہ الگیلا نی کا خطبہ اور مسجد طورہ قل با ئے میں قاری عبد السمیع کا خطبہ میں نہیں بھلا سکتا یہ اپریل 1971کا ذکر اخبارات کی سر خیوں میں سیا سی بیا نات کا زور ہو ا کر تا تھا شیخ مجیب الرحمن، ذولفقار علی بھٹو، خان عبد الولی خان، قیوم خان، مولا نا بھا شا نی، اور شورش کا شمیری کی دھواں دھار تقریروں کے بڑے چر چے تھے سیا سی تقریریں عمو ماً اپنا قد بڑھا نے اور دوسروں کو نیچا دکھا نے کے لئے ہو تی ہیں اور ان کی وجہ سے معا شرے میں گھٹن یا تنا ؤ کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور ذہنوں پر چھا جا تی ہے مولا نا مبارک شاہ الگیلا نی کی آواز دھیمی ہوا کر تی تھی ان کا اسلوب بھی نر م اور دھیما ہو تا تھا گھٹن کے اس ما حول میں وہ خوشی اور مسرت کا پیغام اپنے خطبوں میں دیتے تھے انہوں نے حمدو ثنا کے بعد آیت کریمہ کی تلا وت کی اس کا تر جمہ سنا یا، اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھا مے رہو آپس میں تفرقہ نہ ڈالو آیت مبا رکہ کی تشریح و تفسیر بیان کرنے کے بعد انہوں نے حدیث شریف مکمل حوالہ اور اسنا د کے ساتھ سنا ئی پھر حدیث شریف کا تر جمہ سنا یا ”رسول اکرم ﷺ نے فر ما یا اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی فر مائی ہے کہ اے مسلما نو! تواضع اور انکسا ری اختیار کرو، کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی دوسرے پر ظلم و زیا دتی نہ کرے“

 

اس کے بعد مولا نا نے دھیمے لہجے میں نما ز یوں کو سمجھا یا کہ تواضع مو من کی خو بیوں میں سے اہم خو بی ہے اپنے آ پ پر فخر کرنا اور دوسروں پر زیا دتی کرنا مو من کو زیب نہیں دیتا، انہوں نے سیا ست کا نا م نہیں لیا، سیا سی بیا نات کا حوالہ نہیں دیا اس کے باوجود میرے چار ساتھیوں نے اس خطبے کے بعد سیا سی بحث تمحیص اور جھگڑوں سے تو بہ کیا اس طرح مسجد طورہ قل بائے میں قاری عبد السمیع کا خطبہ یا د آتا ہے قاری عبد السمیع لمبے قد، ازبک نا ک نقشہ کے ساتھ عربوں کے لہجے میں حدو ثنا پڑھنے والے بارعب شخصیت کے ما لک ہو نے کی وجہ سے خطیبوں میں ممتاز تھے اُس روز کے اخبارات میں دہشت گردی کے بڑے واقعے کی خبریں نما یاں تھیں قاری صاحب نے حمد وثنا کے بعد سورہ نساء کی آیت تلا وت کی آیت کا تر جمہ سنا تے ہوئے کہا کہ جس نے کسی مسلمان کو جا ن بوجھ کر قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے ہمیشہ اس میں رہے گا اس کے بعد قاری صاحب نے خطبہ حجتہ الوداع سے حدیث شریف کا حوالہ دیا اور کہا کہ ”نبی اکرم ﷺ نے فر ما یا آج کے بعد تمہا را خون ایک دوسرے پر حرام ہے ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم ایک دوسرے کی جا ن کے درپے ہو جاؤ“

 

پھر قاری صاحب نے دوسری حدیث سنا ئی ”رسول اللہ ﷺ نے فرما یا قیا مت کے روز مقتول اپنے قاتل کو سر اور پیشا نی سے پکڑ کر لائے گا اس حال میں مقتول (فریا دی) کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا مقتول بار گاہ رب العزت میں التجا کرے گا کہ اس نے مجھے قتل کیا تھا بار گاہ رب العزت سے قاتل کے لئے جہنم کا حکم ہو گا“ حدیث شریف سنا نے کے بعد قاری صاحب نے کہا کہ ہر گنا ہ کی تو بہ ہے قتل کی تو بہ نہیں مسلما ن کا قتل ہو اور جان بو جھ کر قتل کیا گیا ہو تو اس کی کوئی تو بہ نہیں مولا نا حسن جا ن شہید نے عرب مما لک، افریقہ اور یو رپ کے کئی دورے کئے تھے ان کا علم بہت وسیع تھا ان کے لہجے میں شہد جیسی مٹھا س تھی کبھی خطبہ ارشاد کر تے کبھی سوالوں کے جوا ب دیتے جو چھوٹی چھوٹی پر چیوں پر لکھ کر منبر تک پہنچا ئے جا تے تھے ان کا خطبہ عموما ً مختصر ہوا کرتا تھا، کم بولتے تھے اور جب بولتے دریا کو کوزے میں بند کرتے تھے ایک دن سوال آیا تھا کیا مسلمان کے نیک اعمال ضا ئع بھی ہو تے ہیں؟ آپ نے جواب دیا دوصورتوں میں مسلمان کے نیک اعمال بھی ضائع ہوتے ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شان مبارک میں گستاخی کرے دوسری صورت یہ ہے کہ کسی مسلمان کو جا ن بو جھ کر قتل کرے، آپ نے آیا ت کریمہ اور احا دیث مبا رکہ کے حوالے دیکر جواب کی مدیل وضا حت فر مائی پشاور میں میرے سنے ہوئے یا د گار خطبے یہی تھے ان کی سدا بہار حیثیت ہے۔

 


شیئر کریں: