Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

الوداع  2022۔ ۔ گل عدن چترال

شیئر کریں:

الوداع  2022۔ ۔ گل عدن چترال

اکیسویں صدی کی بائیسویں سال اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔گزرے سالوں میں کیا کھویا کیا پایا، اس قصے میں اب کیا رکھا ہے مگر ان گزرے سالوں نے جو سبق دئے سیکھنے والوں کے لئے قابل غور اور باعث فکر ہیں ۔ کتاب ماضی کسی کے لئے بھی رنگین صفحات کا مجموعہ نہیں ہوتا مگر اس قیمتی کتاب کا کچھ حصہ رنگین ضرور ہوتا ہے۔جو مشکل وقت میں انسان کو حوصلہ دیتے ہیں ۔لیکن کتاب ماضی ان لوگوں کے لئے ایک بے کار بوجھ ہے جنہیں اپنی غلطیوں، نادانیوں، برائیوں سے کھبی کچھ سیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن درحقیقت اس کتاب کا ایک ایک صفحہ ایک ایک حرف نہایت قیمتی ہے ۔دراصل انسان کو اصل رہنمائی اسکے اپنی ذات سے ہی ملتی ہے۔ہماری ماضی میں کی گئی غلطیاں ہی ہماری اصل سربراہ ہیں بشرطیکہ ہم اپنے غلطیوں سے سیکھنے والے ہوں ورنہ جو انسان کچھ سیکھنا نہیں چاہتا اسکے لئے آپ پوری دنیا کی علم اور عالم جمع کرکے بھی اسے کچھ نہیں سیکھا سکتے۔بہرحال کتاب ماضی درد سے بھرا ہو یا خوشیوں سے کوئی بھی فرد اپنے گزرے وقت کو یکسر بھلا نہیں سکتا۔لیکن ہر وقت ماضی کی یاد میں آہیں بھرنا ذہنی مرض کی علامات ہیں ۔ زہنی طور پر صحت مندانہ زندگی کی خاطر ماضی کو صرف اپنی راہ نمائی کے لئے یاد رکھنا چاہیے ۔

 

ہر سال کی طرح اس سال نے بھی (یقینا ) آپکو مجھے ہم سب کو بہت سارے سبق دئے۔ میں اپنے اس سال کے اسباق میں اپنے قارئین کو بھی شامل کرنا چاہتی ہوں۔پہلے سبق کا ذکر تو میں نے تمحید باندھنے میں ہی کردیا تھا کہ ہمیں ماضی کو خوش دلی سے الوداع کردینا چائیے ۔خوشیوں کے ان تمام لمحات کو وقت کے ساتھ جانے دینا چائیے جو وقت اپنے ساتھ لایا تھا ۔۔ دوسرا فارمولا جو میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے بہت ضروری ہے وہ ہے “جیو اور جینے دو ” کاش ہم سب کو یہ بات سمجھ آجائے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اسکے سانس لینے پر اللہ کا تو حق ہے لیکن کسی دوسرے انسان کا نہیں ۔تو ایک دوسرے کے خدا کیوں بن رہے ہیں ہم؟؟۔موجودہ دور میں ہم سب کو ایک دوسرے سے بے شمار شکایتیں ہیں اور ان شکایات میں سر فہرست رشتوں میں دوری کی شکایت ہے جسکی اصل بنیاد یہی ہمارا ایک دوسرے کے معاملات میں ضرورت سے زیادہ ٹانگ اڑانا ہے۔ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرلینا چاہئے کہ رشتوں ناطوں، تعلقات حقوق و فرائض احساس یا ہمدردی کے آڑ میں ہمیں ایک دوسرے کے فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ تیسرا سبق۔ اکثر سنا تھا کہ اچھی نیت پر انسان کو وہ انعام ملتے ہیں جو اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتے۔مجھے گزرے تمام سالوں نے دراصل یہی ایک ایسا سبق دیا ہے جو مجھے ہر نئے سال میں پھر سے ایک نئے سرے سے شروع کرنے کا ،آگے بڑھنے کا زندگی کو جینے کا اور سب کو معاف کردینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ نیت کی پاکیزگی ہی اصل پاکیزگی ہے۔اور ایک پرسکون زندگی کی ضمانت بھی۔آنیوالے والے وقت میں اگر زندگی رہی تو ہم دوسروں کے لئے کچھ اور کرسکتے ہیں یا نہیں کرسکتے مگر ہم ایک دوسرے کے لئے اپنی نیت پاک رکھ سکتے ہیں ۔ رشتوں کو بچانے کے لئے بھی یہی ایک فارمولا ہے اور ایک پرسکون زندگی کی ضمانت بھی “صاف نیت “ہے۔

 

جاتے جاتے وہ سبق بھی بتادوں جو خاص طور پہ رواں سال نے دیا ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ جسطرح آپ دوسروں کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح آپ کا بھی خیال رکھا جائے تو سب سے پہلے اپنا خیال خود رکھیں ۔یقین جانیں جو شخص اپنی جان پر خود ظلم کرتا ہے اس پر ہر ایک شخص ظلم کرتا ہے ۔اگر آپ دوسروں کی خوشی اور آرام کی خاطر اپنا سکون اپنی صحت ،اپنی خوشیاں روند ڈالیں گے تو یقین جانیں دوسرے بھی آپکی صحت، آپ کا ذہنی سکون آپکی خوشیاں اپنے پیروں تلے روندتے رہیں گے ۔اگر آپ حساس ہیں تو سب سے پہلے اپنا احساس کریں اور اپنا سکون برباد کرنے کا موقع اور اجازت کھبی کسی کو مت دیں ۔

اسباق تو بہت ملے لیکن فی الحال اتنا ہی۔
آپ سب کو نیا سال بہت مبارک ہو ۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
69826