Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خواتین  کو درپیش معاشرتی، معاشی اور سیاسی نوعیت کے مسائل کا مکمل ادراک کرنے اور ان کی حل کے لئے طویل المدتی بنیادوں پر تجاویز مرتب کرنے اور ماس میڈیا میں انہیں اجاگر کرنے کے سلسلے میں چترال پریس کلب میں پینل ڈسکشن کا انعقاد

Posted on
شیئر کریں:

خواتین  کو درپیش معاشرتی، معاشی اور سیاسی نوعیت کے مسائل کا مکمل ادراک کرنے اور ان کی حل کے لئے طویل المدتی بنیادوں پر تجاویز مرتب کرنے اور ماس میڈیا میں انہیں اجاگر کرنے کے سلسلے میں چترال پریس کلب میں پینل ڈسکشن کا انعقاد

چترال (نمایندہ چترال ٹایمز ) خواتین کو زندگی کے تمام شعبوں میں بااختیار بنانے کے لئے ان کو  درپیش معاشرتی، معاشی اور سیاسی نوعیت کے مسائل کا مکمل ادراک کرنے اور ان کی حل کے لئے طویل المدتی بنیادوں پر تجاویز مرتب کرنے اور ماس میڈیا میں انہیں اجاگر کرنے کے سلسلے میں چترال پریس کلب اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کےBEST4WEER پراجیکٹ کے تحت پینل ڈسکشن دو دن تک جاری رہنے کے بعد بدھ کے روز احتتام پذیر ہوگئی جس میں مختلف اسٹیک ہولڈروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ڈسکشن میں چترال میں خواتین کو درپیش مسائل میں گھریلوتشدد اور جنسی ہراسگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ کم عمری میں شادی، ضلع سے باہر بغیر تحقیق کے شادی کرانا، پدری جائیداد سے محرومی، گھریلو فیصلہ سازی میں خواتین کو نظر انداز کرنا اور خواتین کے لئے خودروزگاری کے مواقع کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا۔

ڈسکشن میں پینلسٹ کے طور پر پروفیسر رحمت کریم بیگ، مولانا خطیب خلیق الزمان، پروفیسر حسام الدین، محمد شجاع الحق بیگ، فریدہ سلطانہ، پولیس سب انسپکٹر دلشاد پری، ساجد اللہ ایڈوکیٹ، نیازاے نیازی ایڈوکیٹ شامل تھا جبکہ پریس کلب کے صدر ظہیر الدین نے موڈیریٹر کا کردار ادا کیا۔

پینلسٹوں کا خیال تھا کہ خواتین کے کئی مسائل کا حل اچھی تعلیم میں پوشیدہ ہے کیونکہ تعلیم سے جہاں شعور کو پختگی ملے گی وہاں روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے اور آمدنی کی بدولت ان کے پاس گھریلو فیصلہ سازی کا اختیار خود بخود ہاتھ آ جائےگا ۔ موجودہ وقت میں تعلیم کی کمی اور گھریلو آمدن کےذرائع میں خواتین کا حصہ کم ہونےکی وجہ سےخواتین کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ضلع سے باہر شادی اور کم عمری کی شادی بھی غربت اور بچیوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہو رہی ہیں ۔ جس میں رشتہ کرنے کے نام پرمڈل مین دونوں خاندانوں سے پیسے بٹورتےہیں ۔ اور رشتے میں مسائل آنے کی صورت میں مڈل مین کا پتہ بھی نہیں ہوتا ۔ چونکہ شادی میں والدین کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ اس لئے مڈل مین کے خلاف کسی قسم کی قانونی کاروائی کرنے سے وہ قاصر ہوتے ہیں ۔ یوں شادی کے نام پر یہ رشتہ خاندان اور پورےمعاشرے کیلئے وبال بن جاتی ہے ۔ اوربعض اوقات گھر سے ہنسی خوشی رخصت ہونے والی بیٹی کی لاش والدین کو کفن میں لپٹی واپس مل جاتی ہے ۔ تاہم ضلع سے باہرتمام رشتےبھی غلط اور برے نہیں ہیں۔ مذاکرے میں یہ بات بھی سامنے آئی ۔ کہ آجکل کی بچیاں الیکڑانک میڈیا اور موبائل کی وجہ سے قبل از وقت ہی شادی کی عمرکو پہنچ جاتی ہیں ۔ اور حقیقی زندگی سے دور سکرین پر دیکھے فرضی کہانیوں سے متاثر ہو کر سپنے دیکھنا شروع کر کے شادی میں جلدی کرتی ہیں ۔ جو کامیاب ازدواجی زندگی ثابت نہیں ہوتی۔

 

پینلسٹ نےاس امرکا اظہارکیا ۔ کہ اس حوالے سے آگہی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اسے والدین ، معاشرے اور کالج ویونیورسٹی تک بڑھانےکی ضرورت ہے ۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ بعض بچیو ں کی طورو اطوار والدین کیلئے مسائل کا سبب بن جاتےہیں ۔ یوں والدین نہ چاہتے ہوئے بھی کسی خفت سے بچنے کیلئے مجبورا شادی کر وانے پر مجبور ہو جاتےہیں اور ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہوتا اور اس لئے اس امر کا اظہارکیا گیا کہ بچیاں اپنے والدین اورخاندان کی عزت کا پاس رکھتے ہوئے والدین کیلئےمسائل پیدا کرنے سےگریز کریں۔ تاہم اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ خاندان کے تمام افراد اگر بچیوں کو محبت و احترام دیں توکوئی وجہ نہیں کہ بچیاں والدین کیلئے پریشانی کا باعث بنیں ۔ پینل ڈسکشن میں یہ بھی سامنے آئی کہ چترال میں جتنے بھی ادارے ہیں ان کے انتظامی دفاتر میں خواتین کوملازمت نہیں دی جاتی حالانکہ قانون کے مطابق 10 فیصدکوٹہ خواتین کیلئے مخصوص ہے۔

اسی طرح وراثت میں بھی خواتین کے ساتھ ورثاءکا سلوک اچھا نہیں ہے ۔ ڈسکشن میں اس امرکا اظہار کیا گیا کہ شخصیات کی تعمیر میں خواتین کا بڑا ہاتھ ہے ، اسلام نےخواتین کو بہت بڑامقام دیا ہے اورحسن سلوک کی تاکید کی ہے اور احترام پر مبنی خاندانی نظام کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جس میں خواتین کا کردار کلیدی ہے ۔ نبوت پر ایمان لانی والی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی خاتون ہی تھین ۔ ڈسکشن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ خواتین پر ظلم و جبر کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے والیاں بھی خواتین ہی ہیں۔ خصوصا چترالی خاندان کے اندر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک خود خواتین زیادہ کرتی ہیں ۔ اس لئے صرف مردوں پر الزام لگانا درست نہیں ۔ بعض امتیازی رویے چترالی کلچر کا حصہ رہےہیں ۔ اس لئے آج بھی گھروں کے اندر مائیں کلچر سےمجبور وہ رویے اپناتی ہیں جنہیں انجام دینےکیلئے کسی مرد نے انہی کہا نہیں ہوتا ۔

ڈسکشن کے احتتام میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ بیان کردہ ساتوں مسائل پر الگ الگ تحقیق کی ضرورت ہے، معاشرتی آگہی کے لئے مذہبی اداروں ( مساجد اور جماعت خانے) کو مربوط بنیادوں پر استعمال کیا جانا چاہیے اور اس موضوع کو پرائمری سے ثانوی اور اعلٰی ثانوی جماعتوں کے نصاب میں شامل کرانے کی ضرورت ہے ۔
ڈسکشن کے پہلے روز یونیورسٹی آف چترال کے طالبات جبکہ دوسرے روز تحصیل کونسل چترال کے مرد اور خاتون اراکین،چترال پولیس، محکمہ سوشل ویلفئیر، ایجوکیشن اور ہیلتھ کے افسران اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، تجار یونین اور ڈرائیور یونین کے نمائندوں نے شرکت کی اور ڈسکشن میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے اپنے تجاویز پیش کئے اور موضوع سے متعلق سوالات اٹھائے جن کا پینسلٹوں نے جواب دیا۔

اس موقع پر پریس کلب کے صدر ظہیر الدین نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ اس پراجیکٹ کا مقصد خواتین کو سوشل اور دوسرے میڈیا پلیٹ فارم میں بھر پور طور پر شریک کرکے ان کے مسائل جو اجاگرکرنا ہے۔

شرکاء نے پیبل ڈسکشن کو خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے انتہائی مفید قراردیا۔
ڈسکشن میں صدر تجار یونین بشیر احمد خان، اظہر اقبال، یوسف شہزاد، انور حسین، وقاص احمد ایڈوکیٹ، اشتیاق احمد، کلثوم حیدر،رفیدہ بی بی، عائشہ، دلشاد پری، ثمینہ عزیز، بی بی عائشہ، بشریٰ امان،۔ منظور احمد، راحت علی، فیصل کمال، سکینہ بی بی، نسیم، بی بی جان، صباحت رحیم بیگ، شائشہ جبین، ظاہرہ گل، بی بی بینظیر، شازیہ افشان، انم ربا، الفت مریم، ماہام امتیاز، حر اناز، انمول، ربا اکبر، سریش کنول، ساجدہ عمر، ماروہ، مہین خان، عنا رئیس بیگ، نمرہ بتول، مشال عدیل بیگ، ام ہانی اور دوسروں نے شرکت کی۔

chitraltimes chitral press club discussion panel on women issues in chitral 2

chitraltimes chitral press club discussion panel on women issues in chitral 5

chitraltimes chitral press club discussion panel on women issues in chitral 4 chitraltimes chitral press club discussion panel on women issues in chitral 6

chitraltimes chitral press club discussion panel on women issues in chitral 1 chitraltimes chitral press club discussion panel on women issues in chitral 7 chitraltimes chitral press club discussion panel on women issues in chitral 8


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
69751