Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان – ”پانچ دن کی ڈیوٹی اور اساتذہ کی دھاٸیاں“- محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان – ” پانچ دن کی ڈیوٹی اور اساتذہ کی دھاٸیاں “- محمد جاوید حیات

موسم کا ہر کہیں بڑا اثر ہوتا ہے جعرافیاٸی حالات سے کسی کو انکار نہیں ۔۔صوبہ خیبر پختونخواہ کا علاقہ مختلف جعرافیاٸی حالات رکھتا ہے اس میں میدانی، پہاڑی، سرماٸی ،گرماٸی، پہاڑی اور برفانی ہر قسم کے علاقے پاۓ جاتے ہیں ان کے موسمی حالات کا سب کو پتہ ہے اس لۓ مختلف محکمے کے ملازم جب ان علاقوں میں ڈیوٹی پہ ہوتے ہیں ان کو کچھ مراعات سے نوازا جاتا ہے اور ساتھ ان کو جلد ٹرانسفر کیا جاتا ہےکہ انھوں نے مشکل علاقوں میں ڈیوٹی کی ہوتی ہے ۔۔ان علاقوں کے جعرافیاٸی حالات جب سے یہاں انسانوں کی رہاٸش شروع ہوٸی ہے ایسے ہی ہیں انسان ان سے لڑتا رہا ہے ۔پرانے زمانے کی نسبت آج کل آسانیاں ہیں حالات قابل برداشت ہیں اگر کہیں قدرتی آفات کا سامنا ہوتا ہے تو اس سے نمٹنے کے لۓ حکومتی اقدامات ہوتے ہیں ۔۔

 

ہمارے یاں سکولوں میں بچوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوۓ سکولوں میں اقدامات کیۓ جاتے ہیں گرماٸی علاقوں میں گرمیوں کی چھٹیاں زیادہ ہوتی ہیں اگر کہیں گرمی بچوں کی برداشت باہر ہو توچھٹیاں بڑھاٸی بھی جاتی ہیں اسی طرح سرماٸی علاقوں میں بھی ہوتا ہے ۔بہت برف پڑ جاۓ طوفانی بارشیں ہوں سردی کی شدت ناقابل برداشت ہو تو حکومت فورا قدم اٹھاتی ہے ۔2019 میں پوری دنیا میں آفت وبا کی صورت میں آٸی ساری دنیا متاثر ہوٸی وہاں پر ہمارے ہاں بھی بچوں کی تعلیم بہت متاثر ہوٸی سکول بند رہے تعلیمی سال متاثر رہے رواں سال بھی تعلیمی سال تقریبا آگست میں شروع ہوا لیکن کتابوں کی عدم دستیابی اور بورڈ امتحانات میں نتاٸج کی تاخیر کی وجہ سے تعلیمی عمل تقریبا ستمبر کو شروع ہوا ۔اب جب مارچ کو بورڈ امتحانات ہونگے تو بچوں کی پڑھاٸی نہایت متاثر رہے گی۔

 

اس سال موسمی حالات بہت اچھے ہیں اس وجہ سے عزت مآب سکریٹری تعلیم نے 23 دسمبر کی بجاۓ 31 دسمبر تک حاضری بڑھانے کو کہا تو اساتذہ کی دھاٸیاں آنے لگیں۔بس اگر سکول ایک دن بھی کھلے رہیں گے تو قیامت آجاۓ گی سارے بچے بیمار ہوجاٸیںگے اساتذہ مرکھپ جاٸیں گے ۔بات ہمارے خلوص اور جان فشانی کی ہے ہم اساتذہ میں سے کوٸی کیوں جولاٸی کی چھٹیوں پر کوٸی اعتراض نہیں کرتے کہ اس وقت ہمارے یاں بڑا مناسب موسم ہوتا ہےاور بچوں کی پڑھاٸی جاری رکھی جاۓ۔۔

 

اب جب حاضری چند دنوں کے لۓ بڑھانے اعلان ہوا تو ہمیں چاہیۓ تھا کہ بڑے دبے لفظوں میں آرام سے اپنے آفس کے ذمہ داروں کو آگاہ کرتے کہ سردی بڑی ہے بچے پڑھاٸی نہیں کر سکتے ہیں ۔سوشل میڈیا میں اتنی چیخ وپکار نہ کرتے بلکہ ہم خاموش رہتے بچوں کے والدین خود حکام بالا کو آگاہ کرتے کہ ان کے بچے اس ٹھٹھرتی سردی میں سکول نہیں جاسکتے ۔ہم سے پہلے جن حالات میں ہمارے آبا و اجداد نے ان اداروں میں تعلیم حاصل کی ہے اس سے ہم آگاہ ہیں لیکن افسوس ہم میں قربانی کا وہ جذبہ ختم ہوا ہے جو زندہ قوموں کے لۓضروری ہے ۔ میں جب سوشل میڈیا میں اساتذہ کے مضامین اور زبانی فریادیں سن رہا تھا تو اچھا نہیں لگتا تھا ۔ہم سے زیادہ قوم کے بچے اہم ہیں ہم خاموش رہتے تو اچھا تھا ۔تعلیم دینا اور تعلیم حاصل کرنا دونوں قربانی چاہتے ہیں

 

ہمارے بھاٸی برف پوش پہاڑوں میں قوم کی خدمت کر رہے ہیں دفتروں میں سارا دن بیٹھے رہتے ہیں کام میں جھتے رہتے ہیں میں جب ٹیچر بنا تھا تو ہم اٹھ اٹھ پریڈ پڑھاتے آج تین پریڈ پڑھا رہا ہوں بیٹھا رہتا ہوں تنخواہ بہت زیادہ ہے اس نسبت سے مجھے جان کھپانی ہے ۔ہم قوم کے ” محسن “ ہیں یہ ہم ہی بولتے ہیں چاہیۓ کہ قوم ہمیں ”محسن “کہے زمانا ہمیں ”محسن“ کے طور پر یاد رکھے ہمارے شاگرد ہمیں ”محسن“ کے طور پر یاد کریں تب ہمارا مقام بنے ۔سیاست تک حرکت میں آگئی اب چھٹیاں ہوگٸیں اگر ہم خاموش رہتےٕ تب بھی چھٹیاں ہوتیں لیکن ہم نے اتنی فریادیں کٸیں کہ لوگ کہنے لگے کہ ” دنیا میں سب سے زیادہ سردی اساتذہ محسوس کرتے ہیں “ ہمارا کام ” نوکری “ نہیں ہے انسان سازی ہے قوم سازی ہے روح انسانی کی صنعت ہے اگر کوٸی بندہ جذبہ قربانی سے پر نہ تو وہ اس کارواں میں شامل ہی نہ ہو جاۓ ۔پرانے اساتذہ کی زندگیاں شاگردوں کے لۓ وقف ہوتی تھیں وہ پیدل کٸی میلوں کا سفر کرتے بھوک پاس الگ ستاتیں تب وہ معماراں قوم تھے ہمیں بھی اس جذبے سے سرشار ہوناچاہیۓ ۔


شیئر کریں: