Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

والد محترم کوہم سے بچھڑے  دو سال بیت گئے – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

شیئر کریں:

والد محترم کوہم سے بچھڑے  دو سال بیت گئے – تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

مجھ کو چھائوں میں رکھا خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں

کبھی کبھی والدکی جدائی کے غم کے بارے میں کسی دوست یا رشتہ دار سے بات کرنے اور رونے سے بھی دل ہلکا ہوجاتا ہے۔ مگردوسروں کے لئے یہ سمجھنامشکل ہوتاہےکہ یہ انسان باربارایک ہی بات کیوں دھراتاہے مگریہ میرے غم کے کم ہونے اوراس پرقابوپانے کاایک ذریعہ ہوتاہے تاکہ دل کاغبارنکلے۔ میرے دل کے ہرخانوں میں ہر وقت والدمحترم کا ہنستا مسکراتا چہرہ سمایا رہتا ہے ایسے لگتا ہےجیسے زندگی کا سارا حُسن ان دلکش لوگوں کی وجہ سے تھا۔میرے والدمخترم ایسے ملنسار،محبت کرنے والے شفیق باپ تھے جن کا بیٹا ہونے پر مجھے ہمیشہ فخر رہےگا ۔ خیالات اورالفاظ جتنے بھی حسین بامعنی اوراخترام سے بھرے ہوئے ہوںوالد محترم کی جدائی کا غم قلم کی گرفت میں نہیں آسکتا ۔ اگرحقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو زندگی چیزوں اور سہولتوں کا نام نہیں بلکہ زندگی احساسات اور جذبات کا نام ہے، اگرچہ زندگی بہت کچھ پا کر کھونے کا نام ہے مگر کبھی کبھی جذبات والد کی جدائی پر آنکھوں کو پانی پانی کر دیتے ہیں۔

 

یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دْکھ عابی
سنا ہے باپ زندہ ہوتو کانٹے بھی نہیں چبھتے

قبلہ گاہ، ابو جی، باپ، والد اور جس نام سے بھی یاد کیا جائے تو ایک ایسی شخصیت کا روپ سامنے آتا ہے جواپنے اولاد کے لیے شفقت، پیار اور تحفّظ کی سب سے بڑی علامت ہے۔ والد وہ واحد ہستی ہے جو اپنے بچوں کو تر قی کرتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند ہوتاہے۔بچے کی پیدائش کے بعدمعاشرے میں اعلیٰ مقام دلانے کیلئے باپ اپنی ہستی کو مٹی میں ملانے سے بھی دریغ نہیں کرتا اولادکی ترقی خوشحالی کی وجہ سے معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کیلئے وہ ساری زندگی سر جھکا کر محنت کرتا ہے۔باپ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے۔خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں یہ عظیم نعمت میسر ہے۔

آج سے دوسال قبل 10دسمبر2021 دوپہر2بجے جب میں اِس عظیم ترین نعمت سے محروم ہو گیا۔ جب مجھ بدنصیب کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا، پاؤں تلے زمین نکل گئی، یہ وہ سیاہ دن تھا میرے لئے جب میرے والد محترم اس فانی دنیا سے رخصت فرما کر مالک حقیقی سے جا ملے۔ زندگی جہاں بہاریں ہی بہاریں تھیں، وہاں اک ایسی خزاں نے ڈھیرا ڈالا کہ خوشیاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے روٹھ گئیں، یوں میرے خوشیوں اور مسرتوں پر ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس وقت والد محترم کی وفات میرے لئے ایک چیلنج بن کر سامنے آگئی۔زندگی میں وہ دن کبھی نہیں بھولایا جائے گا جب کوئی محبت کرنے والا جدا ہوا ہو۔ والد کا رشتہ ماں کے بعد تمام انسانی رشتوں میں مقدس اور اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے ۔ میرے والد کا شمار بھی ایسے ہی عظیم لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنی اولاد کی تربیت اور محبت کے لئے وقف کیا تھا۔والدکی زندگی میں اولاد معاشرے کے رسم رواج کے بندھن سے آزادہوتے ہیں ۔ اُن کی نیک دعائیں ہمیشہ ہمارے پاس ہوتے ہیں۔

والد محترم نے اپنے عمرکے تقریباً 72سال علاقے کے سماجی اور فلاحی خدمات میں گزارے ہیں جس کی وجہ سے گاؤں کے مکین اُن کی جدائی کو علاقے کے لئے ناقابل تلفی نقصان قرار دیتے ہیں۔ والد محترم کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری نعمتوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ عاجزی اور انکساری کی بہت بڑی دولت عطاء کی تھی۔ 10دسمبر 2021 کو میرے والد محترم ہم سے بچھڑ گئے مگر ان کی یادیں اور اُن کی جدائی کا درد آج بھی تازہ ہے۔ اُن کی محبت اور یادیں اس درد بھرے دل کو کبھی آنسوؤں کی طوفان میں بہاتے ہیں کبھی خشک صحر اکے دھوپ میں جلاتے ہیں۔ والد محترم گھر کی تمام رنگینوں کو اپنے ساتھ ہی لیکر گئے۔

 

اگرچہ یہ دنیا عارضی ہے او راس کو سب نے ایک نہ ایک دن چھوڑنا ہی ہے۔ لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن میں والد خاص طور پر شامل ہیں ان کی اچانک جدائی کا سوچ کر سب کچھ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ لوگوں کی زبانی یہ سن کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میں ایک ایسے باپ کا بیٹا ہوں جس نے اپنی محنت، لگن، شوق، دیانت داری اور وفاداری کے ساتھ ساتھ اپنے قائم کردہ اصولوں، خیالات، سوچ، فکر، اخلاقی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بھر پور زندگی گزاری ہے اور اس کا عملی اعتراف علاقے کے ہربچہ بچہ سبھی کرتے ہیں۔

 

والدمحترم کوکئی بارخواب میں دیکھا وہ سفیدکپڑوں اورسرپرسفیدٹوپی رکھ کرمسکراہتے ہوئے میرے سامنے کھڑے نظرآتے ہیں ۔میں اُن سے لپٹ کرکتنے باتین کی گلے شکوے کئے اوربہت روئیا ۔مگراسی لمحے آنکھوں کا کھل جانے کالمحہ کسی سزاسے کم نہیں ہوتا۔میرے پیارے پیارے والد محترم آپ کابیٹا ہر لمحہ آپ کو دعاؤں میں یاد رکھتاہے ،بارگاہ الہی میں آپ کے بڑے درجات اوراونچے مرتبوں پہ فائز ہونے کی دعاکرتاہوں ۔اس وقت میں اپنے آپ کوتنہا اوراداس محسوس کرتاہوں مگرمیں ذاتی طور پر آج جو کچھ بھی ہوں، جو عزت ملی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی فضل کرم اور میرے والد کی محنت اوردعاوں کانتیجہ شامل ہے۔ میرا سرفخرسے بلند ہوتاہے جب لوگ شاندار الفاظ میں میرے والد کی خدمات، شفقتوں اور محبّتوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں وہ ایک درویش انسان تھے۔ پورے علاقے میں ان کی حیثیت ایک بزرگ کی تھی۔ میرے سب سے التجاء ہے کہ جن خوش بخت لوگوں کے والد ابھی حیات ہیں، وہ اْن کی قدر کریں،اْن کی خدمت کریں،اْن کی فرمانبرداری کریں، اْنکو ہر حال میں خوش رکھیں۔اللہ تعالیٰ والدمحترم کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین

بقول قتیل شفائی
آج تک دل کو ہے اس کے لوٹ آنے کی امید
آج تک ٹھہری ہوئی ہے زندگی اپنی جگہ
لاکھ چاہا کہ اس کو بھول جائوں قتیلؔ
حوصلے اپنی جگہ ہیں، بے بسی اپنی جگہ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
68983