Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال کا پھول اور خوشبو –  پروفیسراسرارالدین

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

چترال کا پھول اور خوشبو –  پروفیسراسرار الدین

دنیا کو پیش کرنے کیلئے اللہ تعالی نے چترال کو بے شمار چیزین عطا کی ہیں۔ یہاں کے خوبصورت نظارے قدرتی مناظر کے شوقین لوگوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ یہاں کی ثقافتی خصوصیات علم انسانیات کے ماہرین کے لئے کشش رکھتی ہیں۔ یہاں کا ماحولیاتی پیش منظر جغرافیہ والوں اور ماحولیاتی ماہرین کیلئے یہاں کے ارضیاتی راز معائے اندروں ماہرین ارضیات کیلئے اور یہاں کے آثاریات آثار قدیمہ کے ماہرین کے لئے بے پناہ تحقیق و جستجو کا میدان پیش کر تے ہیں۔ لیکن یہ سب باتیں آپ کو دنیا کے تمام حصوں میں بدرجہ اتم مل سکتی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو چترال کو سب سے ممتاز کر تی ہے وہ اسکا ROSEہے۔ یعنی ROSEکا ادارہ جو دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ ادارہ گذشتہ دس بارہ سالوں سے چترال کے بے وسیلہ لیکن با صلاحیت بچوں اور بچیوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کر نے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اور اس عرصے میں دوسو سے زیادہ افراد مختلف شعبوں مثلاََ میڈیکل، انجینئرنگ، ٹیکنیکل ایجوکیشن، ایم اے، ایم ایس سی وغیرہ فنون میں اعلی سندات حاصل کر کے زندگی کے مختلف شعبوں میں ملک و قوم کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اور تقریباَ 300طلبہ اس ادارے کی مدد سے کئی مشہور اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔

 

اس اہم ادارے کے قیام کا سہرا چترال کے ایک قابل فخر سپوت ہدایت اللہ کے سر ہے جس نے اپنے ساتھ کئی رضاکاروں کو شامل کر کے ROSEکے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔ جو Regional Organization for Supporting Educationکا محفف ہے۔ ان دس بارہ سالوں کے دوران ہدایت اللہ صاحب اور ان کے رضا کار ساتھیوں کی ان تھک کو ششوں کے نتیجے میں نہ صرف ROSEکی پورے ملک میں پہچان ہو گئی ہے۔ بلکہ یہ ادارہ چترال سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت نو جوانوں کے لئے ایک امید بن گیا ہے۔میرے سامنے ایسے بے شمار نو جوانوں  کی مثالیں ہیں جو ROSE کے قائم ہونے سے پہلے میٹرک  کا امتحان اعلی نمبر وں سے پاس کرنے کے باوجود صرف بے وسیلہ ہونے کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر تھے۔ میں ان بچوں اور بچیوں کے آنسو کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا جو اچھے نمبروں کے ساتھ ایف ۔ایس ۔سی پاس کرنے کے بعد اور انٹری ٹسٹ میں زیادہ نمبر لینے کے باوجود اپنے اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے تھے اور آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ لیکن شکر کا مقام ہے کہ ROSE ایسے نوجوانوں کے آنسو پہونچے ۔ اور اپنے انکو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا موقع دیا۔ اور ان کو ملک و قوم کے فائدہ مند شہریوں کے صف میں لا کھڑا کیا۔

 

علم کی روشنی کو دنیا میں پھِیلانا اور جہالت کی تاریکی کو دور کرنا کتنا عظیم کام ہے۔ اللہ تعالی نے خود اپنے بندوں کو رب ذدنی علما کا سبق دیا ہے۔ جس میں دینی اور دنیاوی علم شامل ہے۔  دنیا کے تر قی یافتہ اقوام نے اس راز کو پالیا ہے۔ اپنے بچوں بچیوں کو ہر قسم کے علوم سے آراستہ کر نے کیلئے شب و روز کو شش کر تے رہتے ہیں۔ دراصل علم مسلمانوں کا میراث ہے۔     قروں وسطی کے مسلمانوں کی ترقی کو باہر کے لوگ ان کی دینی پڑھائی کے علاوہ جدید علوم میں انکی ترقی کی وجہ سے پہچانتے تھے۔ سپین میں قرطبہ اور کئی دوسرے جامعات میں یورپ کے کئی سائنسدان علوم حاصل کر کے پھر اپنے ممالک میں گئے اور وہاں علم کی روشنی پھیلادی۔ مسلمانوں کے ہاں تعلیم کے فروغ کا یہ طریقہ ہو تا تھا کہ ہر بچے اور بچی کو علم سے اراستہ کر نے کی ذمہ داری اسلامی حکومت کے سپرد تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں سو فیصد مسلمان تعلیم یافتہ ہو تے تھے اور مسلم دنیا ترقی یافتہ بھی تصور ہو تی تھی۔ یورپ والوں نے جب مسلمانوں سے یہ راز پا لیا۔ تو انہوں نے اپنے ہاں ہر قسم کے علوم کو ترقی دی ان قوموں کی ایک اور خاص بات جو انسان کو متاثر کر تی ہے۔ وہ ان کے ایک دوسرے کو مدد کر نے اور ایک دوسرے کو علمی طور پر اٹھانے کا جذبہ تھا۔ جو انہو ں نے مسلمان معاشروں سے لیا تھا۔ اس طرح کئی بے وسیلہ لوگ آگے بڑھنے کے قابل ہو جا تے تھے۔ یہاں اس حوالے سے ایک واقعہ کا اگر ذکر کروں تو بے جا نہ ہو گا۔

 

سکاٹ لینڈ کا ایک کسان ایک دن صبح کے وقت اپنے کام کیلئے جا رہا تھا۔ اتنے میں اس نے ایک بچے کے چیخنے کی آواز سنی۔ آواز کی سمت جا کے ایک جگہ دیکھا۔ کہ ایک بچہ ایک دلدل میں ڈوب رہا تھا۔ دلدل سے نکلنے کی انسان جتنا زور لگالے اسی تیزی دلدل اسکو اپنے اندرکھینچ لیتا ہے۔ کسان نے اس بچے کو تسلی دی اور درخت کی شاخ توڑ کر آگے کیا اور اسکو تسلی دی کہ اسکو پکڑ لو۔ میں تمہیں کھینج لیتا ہوں۔ بچے نے ایسا کیا اور کچھ دیر میں باہر تھا۔ کسان نے اس بچے سے کہامیرے ساتھ میرے گھر چلو تمہارے کپڑے صاف کر دیتا ہوں لیکن بچے نے کہا کہ میرا والد پریشان ہو گا۔ چنانچہ اس نے گھر کو دوڑ لگا دی۔

 

اگلی صبح ایک شاندار بگھی کسان کے گھر کے سامنے آکے کھڑی ہو گئی۔ ایک رعب دار شخص بگھی سے نکلا اور کسان کا شکریہ ادا کیا۔ پھر کہا کہ آپ کی کیا مدد کروں کہ آپ نے میرے بچے کی جان بچالی۔ غریب کسان نے اسکا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جناب میری جگہ کوئی اور بھی ہو تا تو یہی کر تا۔ مجھے کسی صلے کی طلب نہیں۔ بہت اصرار کے بعد جب کسان نے کچھ بھی قبول نہ کیا۔ تو جاتے جا تے اس رئیس کی نظر کسا ن کے بچے پر پڑی۔ جو اس کے ساتھ کھڑا تھا۔ پوچھا کیا یہ تمہارا بیٹا ہے کسان نے محبت سے بچے کو سہلاتے ہو ئے جواب دیا۔ کہ جی ہاں یہ میرا بیٹا ہے۔ رئیس نے کہا کہ ایک کام کر تے ہیں۔ میں اس بچے کو لنڈن لے جا تا ہوں اسے پڑھا تا ہوں۔ بیٹے کی بہتری کی سوچ نے کسان کو اس پر راضی کر لیا اور اسکا بیٹا لنڈن چلا گیا۔ پڑھا اور اتنا پڑھا کہ آج اس کو لوگ الیگزنڈر فلیمنگ کے نام سے جانتے ہیں۔ جس نے پنسلین ایجاد کیا جسکی وجہ سے دنیا کے کروڑوں لوگ ملیر یا جیسے موذی مرض سے نجات پا چکے ہیں۔ وہی رئیس جس کے بیٹے کو کسان نے دلدل سے نکالا تھا کا وہی بیٹا جنگ عظیم اول سے پہلے ایک بار ہسپتال میں ملیریا کی وجہ سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اور اسی فلمینگ کی پنلیس کے علاج سے اس کی زندگی بچ گئی تھی۔ وہ رئیس (Rodolph Churchill) تھا اور اس کا بیٹا سرونٹسن چرچل تھا۔ وہ چرچل جو جنگ عظیم کے دوران بر طانیہ کا وزیر اعظم رہا اور اپنے ملک کو عظیم فتح سے ہمکنار کیا۔ وہ کہا کر تا تھا “بھلائی کا کام کریں “۔ کیونکہ بھلائی پلٹ کر آپ کے پاس آتی ہے۔ اس واقعے کے نیز اس قسم کے متعدد واقعات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ کہ با صلاحیت افراد کی صحیح تربیت سے اور آگے بڑھنے کے لئے ان کے مواقع دینے سے انسانیت  کی کتنی بڑی خدمت ہو سکتی ہے۔

 

یہ شکر کا مقام ہے کہ ROSEنام کے عظیم فلاحی ادارے کی تنظیم کا مبارک کام چترال جیسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے کے حصے میں آیا اور ہدایت اللہ اور اسکے رضا کار ساتھیوں نے بہت کم عرصے میں اس ادارے کو تمام پاکستان میں متعارف کرایا اور ملک کے کئی اہم تعلیمی ادروں (جن کے نام ذیل میں دئیے گئے ہیں) نیز کئی مخیر خواتین وحضرات کے تعاون سے ROSEتنظیم کو مستحکم کیا اور بے شمار باصلاحیت بچوں بچیوں کی امیدوں کا مرکز بنادیا۔ آج ہدایت اللہ نے اپنی انتھک کو ششوں سے ملک کے مختلف شخصیات سے کئی القابات یعنی چترال کا ایدھی یا چترال کا سر سید جیسے اہم نام اپنے نام کر لیا ہے۔ ان کے ان خدمات کے وجہ سے امسال انکو Pride of Pakistan کے اعزاز سے نوزا گیا۔

 

ROSEتنظیم کے اعلی کارکردگی کے پیش نظر ائندہ بھی امید کر تے ہیں کہ پاکستان کے مزید کئی تعلیمی ادارے اس فلاحی کام میں شریک ہوں گے۔ اور زیادہ سے زیادہ مخیرحضرات تعاون کرینگے۔

 

آخر میں دعا ہے کہ ROSEدن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے اور علم کی روشنی اور خوشبو کو پھیلانے کے اپنے مشن کو مزید ترقی دے اور چترال کے تمام صاحب ثروت خواتین و حضرات سے التماس ہے کہ ROSE چترال کے ساتھ مالی معاونت کریں تاکہ ہمارے نوجوانوں میں بھی کوئی الیگزینڈر فلیمنگ، چرچل بننے سے نہ رہ جائے۔ یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور چترال جیسے پسماندہ علاقے کی اولین ضرورت بھی ہے۔


شیئر کریں: