Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لالچ کا مرض  –  تحریر:اقبال حیات اف برغذی        

Posted on
شیئر کریں:

لالچ کا مرض  –  تحریر:اقبال حیات اف برغذی 

لالچ ایک ایسا فعل ہے۔ جو انسان کی آنکھوں کو آندھا کردیتا ہے ۔ انسانی اقدار کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ دامن کو داغدار کرتا ہے۔ دل کی حقیقی لزت کو متاثر کرنے کے ساتھ قناعت اور حق گوئی جیسے بہترین اوصاف سے انسان کو محروم کرتا ہے اللہ رب العزت کی اس کائنات کے رنگ وبومیں حرص ولالچ کی طرف رغبت پیدا کرنے کا عنصر شامل ہے۔ جو انسانی فطرت کو متاثر کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ یوں اگرچہ لالچ کا مادہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتا ہے ۔مگر بعض افراد کے اندر اس کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔کہ وہ اپنے مقاصد کی برآوری کےلئے لالچ کے حدود کو پارکرکے کاسہ سیسی کے حدود میں داخل ہوتے ہوئے بھی نہیں شرماتے ۔ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے خوداری جیسی اعلیٰ انسانی وصف کو دفن کرنےکے مترادف ہے ۔

ایک ذمہ دار عہدے پر فائز شخص کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ مختلف معاملات اور ضروریات کے سلسلے میں حاضر خدمت ہونے والے افراد اپنی معروضیات کا اظہار کررہے تھے۔ اور ہر کوئی اپنی گزارشات کو شہد بھر ے الفاظ کی صورت میں پیش کررہا تھا۔ اسی دوران ایک شخص دفتر میں داخل ہوکر سرکو جھکائے ،ہاتھ سینے  پرسجائے ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے کرسی تک پہنچنے کے بعد دست بوسی کا شرف حاصل کرتا ہے۔ ادب،احترام اور تواضع کا ایسا نقشہ اور رنگ پیش کیا جاتا ہے۔ کہ جس سے لالچ کی بو کا احساس کرتے ہوئے ۔ہرکسی کے چہرے پر ناپسندیگی کا اظہار نمایان ہوکربے ساختہ لب پر “اوہو” لفظ آتا ہے۔یہ کیفیت صرف ایک جگہ ہی نہیں بلکہ خوراک الودہ برتن پر بیٹھنے کےلئے آتے وقت مکھی بھی اپنی مخصوص انداز میں گنگناتی ہے جس سے لالچ ہواس کے وجود کے تمام عیو ب منظر سے غائب ہوکر صرف اچھائی اور قابل تعریف رنگ اجاگر ہونگے۔

 

اس کا چہرہ اگر کوئلے کی طرح کالا بھی ہو تو لالچی انسان اسے الفاظ کے صابن سے دھوکر چودھویں کا چاند بناکر پیش کریگا۔ اس کے زیب تن بدنما لباس کو اس کی دلکشی کے رنگ میں رنگین کریگا۔ اس کی زبان سے نکلنے والے فضول الفاظ کو بھی سونے سے تولنے کے قابل قرار دیگا۔ اپنے آپ کو اس کا تابعدار نوکر اور غلام قرار دیتے ہوئے بار بار ہاتھ سینے میں سجاتا رہیگا۔چہرہ سکڑ گیا ہو اور بڑھا پے کا رنگ نمایان ہو توجوان اور تنومند اوصاف سے اس پر پالش کرے گا۔اگر بے دھڑگ حرام خوری کا مرتکب ہو تو اسے ایمانداری کے آب زمزم میں دھوکرصاف اور شفاف کردار کا حامل گردانیگا۔الغرض آنکھیں اس کے چہرے پر مرکوز،زبان تعریف میں مشغول اور دل لالچ اور مطلب کی برآوری کےلئے تڑپان اپنے مسکن سے باہر نکلنے کی کیفیت سے دو چار ہوگا۔

 

اس بدفعلی کے ارتکاب کی اصل وجہ انسان کے اپنے مقدر پر ایمان اور یقین میں کمی ہے ۔ اور ساتھ ساتھ اس احساس کا فقدان ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان ۔اور لالچ صرف اس ذات سے ہو نا چاہیے۔ جو محتاجی سے پاک ہو۔ اور وہ ذات صرف اللہ رب العزت ہیں۔ شاہجہان بادشاہ شکار کھیلتے ہوئے ساتھیوں سے بچھڑ جاتے ہیں اور پیاس کی شدت سے ایک چرواہے سے پانی کا تقاضا کرکے ان کی گندی ٹوکری سے منہ لگا کر پیاس بجھانے کے بعد چرواہے سے شاہجہان کو پہنچاننے کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ان کی طرف سے منفی جواب پر وہ اپنا تعارف کرواکر انہیں اپنے دربار میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ چند دنوں بعد جب چرواہا دربار شاہی میں پہنچتے ہیں تو دربان انہیں اندر بیٹھاتے ہیں اور شاہجہاں اس وقت نماز میں مشغول ہوتے ہیں ۔بادشاہ نماز کی ادائیگی کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا میں مصروف ہوتے ہیں ۔ چرواہا دربان سے ان کے ہاتھ اٹھاکر مانگنے کے بارے میں پوچھنے پر وہ اس کو بتاتے ہیں۔ کہ بادشاہ خداوندتعالی کے سامنے دعاگوہیں۔ چروانا اٹھ کر روانہ ہونے پر دربان انہیں بیٹھانے اور بادشاہ کی طرف سے عنایات لےکر جانے کا کہنے پر چرواتا کہتے ہیں کہ جو بندہ خو دوسروں سے مانگ رہا ہے وہ مجھے کیا دے سکتا ہے۔ میں خود اس سے کیوں نہ مانگوں۔جن سے وہ وہ مانگ رہے ہیں۔اگر ایک چرواہے کے عقیدے کے برابر بھی یقین دل میں پیدا نہ ہوجائے تو لالچ کی طرف اٹھنے والے قدم  ڈگمگا کر کی ذلت کے کنویں میں گرنا ایک یقینی امر ہے۔

 


شیئر کریں: