Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نفسیاتی بیماریوں سے نجات – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

نفسیاتی بیماریوں سے نجات – محمد شریف شکیب

ماہرین نفسیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ذہنی پریشانی سب سے بڑی بیماری ہے۔ ذہن اگر پراگندہ ہوگا تو مثبت سوچ پیدا نہیں ہوسکتی اور مثبت سوچ کے بغیر زندگی بے ڈھنگی ہوجائے گی۔ انسان اپنے مقصد اور منزل کے راستے سے بھٹک جائے گا۔ قدرتی نظام سے روگردانی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔ ‏جو کھانا ہم کھاتے ہیں، اسے 24 گھنٹے میں ہضم کر کے جسم سے باہر پھینکنا پڑتا ہے، ورنہ ہم بیمار پڑ جائیں گے۔جو پانی ہم پیتے ہیں وہ ہمارے جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور 4 گھنٹے میں باہر پھینک دیا جاتا ہے ورنہ ہم بیمار ہو جائیں گے۔ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں اسے ایک منٹ میں باہر‏ پھینکنا پڑتا ہے ورنہ ہم مر جائیں گے۔۔نفرت، غصہ، غیبت، حسد، عدم تحفظ جیسے منفی جذبات ہم باہر سے اپنے دل اور ذہن میں لیتے ہیں اور کئی دنوں، مہینوں اور سالوں تک اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔

 

اگر ان منفی جذبات کو باقاعدگی سے باہر نہ پھینکا جائے تو ہم نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہین اور پھر ہلاکت سے دوچار ہوتے ہیں۔دانشوروں کا قول ہے کہ زندگی اتنی مختصر ہے کہ وہ خوشی رہنے، دوسروں میں خوشیاں بانٹنے ،ہنسنے مسکرانے اور پیار محبت کے پھول بانٹنے اور اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے بھی ناکافی ہے نہ جانے لوگ نفرت کرنے کے لئے وقت کہاں سے نکالتے ہیں۔ ذہنی امراض کے معروف معالج پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی کہتے ہیں کہ ذہنی بیماری کینسر، یرقان، تپ دق اور امراض قلب سمیت کسی بھی جسمانی بیماری سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے دیگر امراض میں مبتلا افراد کو اپنی جان کی فکر دامن گیر رہتی ہے جبکہ ذہنی امراض مین مبتلا شخص نہ صرف دوسروں کی جان لینے کے درپے ہوتا ہے بلکہ خود اپنی زندگی کا چراغ بھی اپنے ہاتھوں گل کردیتا ہے۔

 

ہمارے صوبے خاص طور پر پشاور،چترال، دیر اور سوات میں خود کشی کے واقعات میں حالیہ برسوں میں تشویش ناک اضافہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ذہنی بیماری کو مرض سمجھا ہی نہیں جاتا۔ جب پانی سر کے اوپر سے گذر جاتا ہے تو لوگ دم دعا،تعویز گنڈے کے ذریعے ذہنی امراض کا علاج کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومتیں بھی ذہنی بیماریوں کو سنجیدہ نہیں لیتیں۔بڑے ہسپتالوں میں ذہنی امراض کا ایک چھوٹا سا سیکشن رکھا جاتا ہے جبکہ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں ذہنی امراض کا کوئی معالج نہیں ہوتا۔ ذہنی امراض کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں ان میں گھریلو ناچاقی، مالی مشکلات، بھوک، بے روزگاری، غربت، مہنگائی، ناانصافی، معاشرتی عدم مساوات، محبت،امتحان سمیت کسی مقابلے میں ناکامی ذہنی امراض کی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

 

ہمارا معاشرہ اتنا بگڑا ہوا ہے کہ یہاں مثبت سوچ رکھنے والوں کو بے وقوف اور پرانے خیالات کا انسان قرار دیا جاتا ہے۔ محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، ہمدردی، روادی، برداشت اور غفو درگذر کے جذبات اور احساسات مفقود ہوتے جارہے ہیں ۔ان مثبت احساسات کے فقدان کی وجہ سے ذہن پراگندہ ہونے لگے ہیں اور منفی سوچ ذہنی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت جمع کرنا مقصد حیات بن چکا ہے۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ فلان شخص منشیات نے کاروبار، کرپشن، لوگوں کی زمینوں پر قبضے ، ملاوٹ ، جعل سازی اور ٰغیر قانونی ذرائع سےدولت جمع کررکھی ہے۔

 

اس نے دو کینال کا بنگلہ خریدا ہے اس کے گھر میں بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہیں اس کی اصلیت جاننے کے باوجود دولت کی وجہ سے لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔اور اس کی معاشرتی حیثیت کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس کے نقش قدم پر چلنے اور بڑا آدمی بننے کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ حکومت قانون سازی یا سرکاری احکامات کے ذریعے معاشرے میں پنپنے والے منفی اقدار اور روایات کو ختم نہین کرسکتی۔ گھر میں بچوں کی بہتر تربیت، سکول، مدرسے اور محراب و منبر کے ذریعے نیکی کا فروغ اور برائی کی حوصلہ شکنی کی تحریک شروع کرکے ایک بہتر معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔


شیئر کریں: