Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اسٹیٹ بینک نے بینکاری کے شعبے کی کارکردگی کا ششماہی جائزہ جاری کر دیا

Posted on
شیئر کریں:

اسٹیٹ بینک نے بینکاری کے شعبے کی کارکردگی کا ششماہی جائزہ جاری کر دیا

اسلام آباد( چترال ٹایمز رپورٹ) اسٹیٹ بینک نے سال 2022ء کے لئے پیر کو بینکاری کے شعبے کی کارکردگی کا ششماہی جائزہ جاری کر دیا۔ جائزے میں جنوری تا جون 2022ء (پہلی ششماہی 2022ء ) کی مدت میں بینکاری کے شعبے کی کارکردگی اور صحت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں مالی منڈیوں اور مائیکروفنانس بینکوں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ نظامیاتی خطرے کے سروے کے نتائج کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو مالی استحکام کو لاحق اہم خطرات کے بارے میں آزاد جواب گزاروں کی رائے پرمبنی ہے۔جائزے میں کہا گیا ہے کہ 2022ء کی پہلی ششماہی کے دوران پائیدار معاشی سرگرمی سے بینکاری کے شعبے کی بیلنس شیٹ میں 16فیصد توسیع میں مدد ملی۔اثاثوں کی بنیاد میں مضبوط اضافے کا اہم محرک نجی شعبے کے قرضوں کے بہاؤ اور سرمایہ کاریوں خصوصاً حکومتی تمسکات میں اضافہ تھا۔

 

 

علاوہ ازیں، بھاری مقدار میں ڈپازٹس جمع کرنے کے علاوہ توسیع شدہ بیلنس شیٹ کو فنانس کرنے میں بینکوں کے قرضوں پر انحصار میں خاصا اضافہ ہو گیا۔2022ء کی پہلی ششماہی کے دوران نجی شعبے کے قرضوں کی نمو کی رفتار گذشتہ تین برسوں کی تقابلی مدت میں بلند ترین تھی۔ 2022ء کی پہلی ششماہی کیدوران مینوفیکچرنگ سرگرمی میں بہتری،جس کی عکاسی بڑے پیمانے کی اشیا سازی کے انڈیکس میں دوہندسی (double-digit) نمو سے ہوتی ہے، خام مال کی بلند قیمتوں اور اسٹیٹ بینک کی ری فنانس اسکیموں نے قرضوں کے مجموعی بہاو کو بڑھانے میں کردار ادا کیا۔ افراد اور چینی کے شعبے نے قرضوں کا بڑا حصہ حاصل کیا جس کے بعد ٹیکسٹائل شعبے کا نمبر آتاہے۔ نمو کی قابل ذکر کارکردگی کے علاوہ بینکوں کے اثاثہ جاتی معیار کیاظہاریوں (indicators) میں مزید بہتری آ گئی۔ خام غیر فعال قرضوں (این پی ایل) کا تناسب آخرجون 2022ء تک کم ہو کر 7.5 فیصد ہو گیا، جو آخر دسمبر 2021ء میں 7.9 فیصد تھا۔ تاہم، ملک کے کئی حصوں میں حالیہ تباہ کن سیلاب بینکوں سے زرعی قرضہ لینے والوں اور مائیکروفنانس قرض گیروں کی قرض واپسی کی صلاحیت کو متاثر کر سکتے ہیں۔

 

جائزے میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ آمدنیوں میں طاقتور نمو کے باوجود نفع بابی کے اساسی اظہاریوں میں اعتدال آیا، جس کی بنیادی وجہ عائد کردہ ٹیکس میں تیزی سے اضافہ ہے۔بینکوں کی شرحِ کفایتِ سرمایہ (CAR) اثاثوں اور قرضوں میں تیز رفتار نمو کی بنا پر گر کر 16.1 فیصد ہوگئی۔ تاہم اس سے قطع نظر، مذکورہ شرح کم از کم ضوابطی تقاضوں (یعنی 11.5 فیصد) سے خاصی اوپر رہی اور بینکوں کے پاس بحیثیتِ مجموعی مناسب بفر (buffer) اور وہ لچک (resilience) موجود ہے جو انہیں کلی معاشی صورتِ حال کے شدید دباؤ اور خطرات کے اہم عوامل کے اثرات سے بچا سکتی ہے۔اس جائزے میں مارکیٹ کے آزاد شرکا کے احساسات پر مبنی ’ایس آر ایس‘ کے دسویں مرحلے (جولائی 2022ء) کے نتائج کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔رائے دہندگان کا خیال ہے کہ مالی نظام کو لاحق بیشتر خطرات بیرونی نوعیت کے ہیں، یعنی عالمی اور کلی معاشی خطرات۔ تاہم رائے دہندگان کی اکثریت نے مالی نظام کے استحکام پر اعتماد ظاہر کیا۔ملک کے بہت سے علاقوں میں تباہ کن سیلاب بینکوں اور مائیکرو فنانس کے زرعی قرض گیروں کی ادائیگی قرض کی صلاحیت پر اثر ڈال سکتا ہے، اور اسی طرح دورِ ثانی کے اثرات کے طور پر دیگر قرض گیروں کی بھی ادائیگی قرض کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔چنانچہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ بینکوں کے ساتھ مائیکرو فنانس بینکوں کو بھی چاہیے کہ قرض گاری کے پورٹ فولیو پر ممکنہ اثرات کا محتاط طریقے سے تجزیہ کریں اور اثاثوں کے معیار نیز اپنے اداروں کے مالی استحکام کی لچک برقرار رکھنے کے لئے ضروری اقدامات کریں۔

 

ویب سے متنازع مواد ہٹانے کیلئے وزارتِ مذہبی امور کو 30 دن کی مہلت

اسلام آباد(سی ایم لنکس)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے ویب سے متنازع مذہبی مواد ہٹانے کے لیے وزارتِ مذہبی امور کو 30 دن کا وقت دے دیا۔عمران احمد شاہ کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کا اجلاس منعقد ہوا۔کمیٹی ارکان نے سوال کیا کہ نکاح نامے میں ختمِ نبوت کا حلف شامل کرنے کی تجویز پر کیا پیش رفت ہوئی؟سیکریٹری مذہبی امور نے جواب دیا کہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا ہے، جن کی جانب سے تاحال جواب نہیں ملا۔چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ متنازع مذہبی مواد ویب سے ہٹانے پر کیا پیش رفت ہوئی ہے؟مذہبی امور کے حکام نے جواب دیا کہ اس معاملے پر ہائی کورٹ کا حکم آچکا ہے، پی ٹی اے نے عمل درآمد نہیں کیا۔کمیٹی نے ویب سے مواد ہٹانے کے لیے وزارتِ مذہبی امور کو 30 دن کا وقت دے دیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سابق دورِ حکومت میں سائنسی بنیاد پر رویت کی بات کی گئی تھی۔وزارتِ مذہبی امور کے حکام نے جواب دیا کہ رویتِ ہلال مرکزی کمیٹی محرم، رمضان، شوال اور ذوالحج کے چاند دیکھتی ہے، شریعت کے مطابق چاند کی رویت ضروری ہے، دوربین کی مدد سے بھی چاند دیکھ کر رویت نہیں کی جا سکتی۔

 

وزیرِ مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کہا کہ شریعت میں آنکھ سے چاند دیکھنے کا حکم ہے، پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں عید منانا ممکن نہیں، دنیا کے مختلف ممالک میں مطلع مختلف ہوتا ہے، چاند کی رویت پر اتفاقِ رائے کے لیے تمام مسالک کے جید علماء کا اکٹھا ہونا ضروری ہے۔مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن کھئیل داس کوہستانی نے سوال کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس میں کردار کیوں ادا نہیں کرتی؟وزیرِ مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے جواب دیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں سرکاری اور سفارشی علماء ہوتے ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں کی سفارش پر علماء کونسل میں آے ہیں۔اجلاس میں وزارتِ مذہبی امور نے زائرین پالیسی پر قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے 13 اپریل 2022ء کو زائرین مینجمنٹ پالیسی کی منظوری دی، کوئٹہ میں زائرین کیمپ آفس کی تعمیر اور تفتان میں پاکستان ہاؤس کی تزئین و آرائش کی جائے گی، بلوچستان حکومت نے کہا ہے کہ ان کے پاس منصوبوں کے لیے فنڈز نہیں ہیں، زائرین کے ویزا ریگولیشن کے لیے ایران اور عراق کے ساتھ ایم او یوز پر دستخط کیے جائیں گے۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
68563