Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان – ”پاک سر زمین میں “- محمد جاوید حیات 

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان – ”پاک سر زمین میں “- محمد جاوید حیات

نام سے مفہوم نکلتے ہیں ۔۔۔اس لۓ کہتے ہیں ” نام نامی “ اسم با مسمی“ ” نام ہی کافی ہے“ ۔۔جب ہم نے اپنے لۓ نۓ ملک حاصل کرنے کی جد و جہد ابھی شروع ہی کی تھی تو ہندولیڈر ہمیں طعنہ دیتے تھے طنزا کہتے تھے ” پاک لوگ ہیں پاک جگہ رہیں گے اس لۓ ” پاکستان“ بنا رہے ہیں ۔۔بات سچ تھی ہمارے بزرگ بڑے فخر سے یہ طعنے سنتے اور خوش ہوتے ۔وہ ایک خواب دیکھ رہے تھے اور خواب کو سچ کر دیکھانا چاہتے تھے اس لۓ پر عزم تھے۔ لیکن بدقسمتی ہماری تھی کہ ہم اس ”نام “ کی لاج نہ رکھ سکے ۔ایبٹ آباد میں یہ ہمارا چوتھا دن تھا ۔۔۔نسبتا پر سکون جگہ لگ رہا تھا ۔۔۔ محسوس ہورہی تھی کہ شہر ہوتے ہوۓ چکا چوند اور ہلاگلا سے خالی تھا جس سے ملو نرم لہجے میں آرام سے تم سے مخاطب ہوگا بس آج شام ہم نے راستے میں ایک معمولی لڑاٸی دیکھی دو بندے غصے میں تھے لوگ ان کو لڑنے نہیں دے رہے تھےاتنے میں ایک لمبے قد کا وجیہ صورت شخصیت ان کے درمیان آگیا ایک کوڈانٹ کر دھکا دے کر سڑک کے پار لے گیا ۔۔۔کہا ۔۔۔”انسان نہیں ہو ۔۔۔

 

لڑنا کتوں کا کام ہے ۔۔۔۔برداشت بھی کوٸی چیز ہوتی ہے ۔۔۔۔اخلاق بھی کوٸی پیمانا ہے جس میں انسانیت کو تولا جاتا یے“ ۔۔ساتھی فضل اکبر نے کہا یار ! بابا نے انسانیت کا سبق پڑھایا مگر ثنإ اللہ نے کہا ۔۔۔کہ پڑھے گا کون ؟۔۔ واقع سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس پاک سر زمین میں انسانوں کی طرح نہیں رہ سکتے ۔۔ہمارے بڑے ساری رات ایک دوسرے کے خلاف منصوبہ بندی میں لگے رہتے ہیں ہمارے سیاسی کارکن گالیاں یاد کرتے ہیں ہمارے چیلے من مانیاں کرنے، بہکانے، دھندہ کرنے اور لڑانے میں سرگرم عمل ہیں ۔دنیا میں مخالفت ہر کہیں موجود ہے ۔ایک دوسرے سے راۓ کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن مقصد ایک ہوتا ہے منزل ایک ہوتی ہےجس اختلاف میں ملک کا فاٸیدہ ہے اس کو قبول کرنا پڑتا ہے جس حمایت میں ملک کو نقصان کا خطرہ ہو اس سے گریز کیا جاتا ہے ۔سچاٸی، ایمان خدمت اور صلاحیت کی قدر کی جاتی ہے ۔

 

ہر ایک کو سوچنا ہوتا ہے کہ ساتھ والا میرا بھاٸی ہے ہمارا مفاد مشترکہ ہے ہمارا مقصد مشترکہ ہے ۔اس ملک کے حکمران ہمارے ہیں اس کے محافظ ہمارے ہیں اس کے مزدور ہمارے ہیں ۔اگر یہ مثبت سوچ پیدا ہوجاۓ تو یہ ”پاک لوگوں “ کی سر زمین بن سکتی ہے ورنہ تو یہ نفرت خانہ ،اکھاڑہ۔۔۔ ۔فضل اکبر کو بہت افسوس ہو رہا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے ملک تو حاصل کیا لیکن قوم کی تربیت نہیں کی ۔ملک کے لۓ قوم چاہیۓ قوم کے لۓ تربیت چاہیۓ ۔ثناء اللہ نے کہا کہ یار یہ ہمارے گھر یہ ہمارے محلے یہ ہمارے تربیتی اور تعلیمی ادارے ۔۔

 

یہاں سے کون لوگ نکلتے ہیں جواب ہمارے پاس نہیں تھا ۔ایبٹ آباد کے لوگ نسبتا نرم مزاج ہیں یہ بھی سوالیہ نشان ہے کیا جعرافیہ لوگوں کے مزاج پر بھی اثر انداز ہوتا ہے کیا اسلام آباد میں کسی بڑے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کو شرافت نہیں پڑھاٸی جاتی کیا کسی لیڈر کے بچے کو صرف گالی ، نفرت اور دھندہ پڑھایا جاتا ہے کیا اس کو یہ سمجھایا نہیں جاتا کہ وہ پاک سر زمین کا باشندہ ہے یہاں کی تہذیب اس کی امانت ہے اور یہاں کی تہذیب سیکھنا اس کا پہلا سبق ہے ۔خواہ وہ آیبٹ آباد ہو چترال ہو پشاور ہو یا اسلام آباد وہ پاک سر زمین ہے اور اس کے باشندوں کو اس نام کی لاج رکھنی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ نفرت پھیل رہی ہے خودغرضی کو ترقی دی جا رہی ہے ۔منافقت ہماری جڑوں میں اترگٸ ہے اس لۓ پاک سر زمین جتنی بھی پاک ہو پاک لوگوں کی سر زمین کس طرح کہلاۓ گی ۔پاکستان بہت خوبصورت ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ہمیں چاہیۓ کہ اسے اپنے لۓ اللہ کی طرف سے تحفہ تصور کریں اگر ناشکری کریں گے تو دنیا کی اور دنیا والوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے ۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
68404