Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آخر بنے گا کیا؟ ۔ میری بات/روہیل اکبر

شیئر کریں:

آخر بنے گا کیا؟ ۔ میری بات/روہیل اکبر

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام، توانائی بحران اورمجموعی معاشی بدحالی کی وجہ سے اب کم ازکم دس کروڑافراد پیٹ بھرکرکھانا نہیں کھاسکتے ہیں لوگ صحت اورتعلیم پرکمپرومائیزکرنے پرمجبورہوچکے ہیں اوراپنے بچوں کواسکولوں سے نکال کرکام پرلگا رہے ہیں ملک میں نفرت کی سیاست اورقومیت کوہوا دی جا رہی ہے جس سے سماج تباہ ہورہا ہے اوراقتصادی حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں بجلی مسلسل مہنگی کی جا رہی ہے اور معاشی حالات تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں سیاسی محازآرائی نے ڈیفالٹ کے اندیشے کو مذید بڑھا دیا ہے اور روپے کوٹشوپیپرکی طرح بے قدرکردیا ہے حکومت اقتصادی میدان کی طرح سماجی اورتعلیمی شعبہ میں بھی بہترکارکردگی نہیں دکھا سکی ہے جوافسوسناک ہے درجنوں سرکاری ونجی یونیورسٹیاں دیوالیہ ہورہی ہیں مگرکسی کوتعلیمی نظام کی تباہی کی فکرنہیں ہے جوملک کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے اور اوپر سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث ہمیں سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی رواں برس نومبر 2022 تک دنیا کی آبادی 8 ارب تک پہنچ جائے گی اور موجودہ صدی کے اختتام تک یہ تعداد 10 ارب سے بھی تجاوز کرجائے گی عالمی آبادی 1950 کے بعد سے سست رفتار سے بڑھ رہی ہے جو 2020 میں ایک فیصد سے کم ہو گئی ہے۔

 

اقوام متحدہ کے تازہ ترین تخمینے بتاتے ہیں کہ دنیا کی آبادی 2030 میں 8 ارب 50 کروڑ اور 2050 میں 9 ارب 70 کروڑ تک بڑھ سکتی ہے 2080 کی دہائی کے دوران آبادی لگ بھگ 10 ارب 40 کروڑ افراد تک پہنچ سکتی ہے جو 2100 تک اسی سطح پر رہنے کا امکان ہے ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس 2022 کے مطابق حالیہ دہائیوں میں بہت سے ممالک میں شرح پیدائش میں نمایاں کمی آئی ہے موجودہ دور میں عالمی آبادی کا دو تہائی حصہ ایسے ملک یا علاقے میں رہتا ہے جہاں فی خاتون کے ہاں شرح پیدائش 2.1 سے کم ہے اس وجہ کی بناء پر 2022 سے 2050 کے درمیان 61 ممالک یا علاقوں کی آبادی میں ایک فیصد یا اس سے زیادہ کمی متوقع ہے۔2050 تک عالمی آبادی میں متوقع اضافے کا نصف سے زیادہ آٹھ ممالک میں ہو گا جن میں کانگو، مصر، ایتھوپیا، بھارت، نائیجیریا، پاکستان، فلپائن اور تنزانیہ شامل ہیں جبکہ بھارت آئندہ برس چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔

 

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہماری 64 فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے پاکستان کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوراک کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ہم زراعت کے شعبہ میں بہت پیچھے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ کسان فصلوں کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے نئے طریقے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر دیسی طریقوں اور ٹوٹکوں سے فصلوں کی پیدوار میں اضافہ ہونے کی بجائے کسان اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے سویا بین کو ایک معجزاتی فصل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں پروٹین کی مقدار، خوردنی تیل، ضروری امینو ایسڈ، معدنیات اور وٹامنز زیادہ ہوتے ہیں سویا بین کی جڑوں میں رائزوبیم نامی بیکٹیریا موجود ہوتا ہے اس جراثیم کو ماحول کی نائٹروجن کے ذریعے نائٹریٹ کی شکل میں طے کیا جاتا ہے کیونکہ ایک پودا ماحول کی نائٹروجن کو براہ راست استعمال نہیں کر سکتا سویابین کے پودے کی یہ خوبی ہے کہ ہم جس بھی زمین پر اسے کاشت کرتے ہیں، اس کی زرخیزی نائٹروجن کی سطح کے مطابق بڑھ جاتی ہے اورجب ہم کسی دوسری فصل جیسے مکئی کو سویا بین کے ساتھ کاٹتے ہیں تو اس فصل (مکئی)کو نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی نائٹروجن کی ضروریات سویا بین سے پوری ہوتی ہیں سویابین کے پودے کی یہ خوبی ہے کہ ہم جس بھی زمین پر اسے کاشت کرتے ہیں اس کی زرخیزی نائٹروجن کی سطح کے مطابق بڑھ جاتی ہے چونکہ پاکستان کو تیل کی کمی کا سامنا ہے اس لیے ملکی پیداوار اور ضرورت کے درمیان بہت فرق ہے

 

ہمیں اس قسم کے پیٹرن کو تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جو انٹرکراپنگ کی سہولت فراہم کرے۔ انٹرکراپنگ سسٹم میں، کئی انواع ایک دوسرے کے درمیان بیک وقت اگائی جاتی ہیں یہ کسانوں کے لیے فائدہ مند ہے یہ پائیدار پیداوار فراہم کرتا ہے مقامی طور پر پیدا ہونے والی سویا کی تھوڑی مقدار کی وجہ سے اب ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سویا میل اور سویا تیل کی درآمد کی ضرورت ہے یہ ایک کثیر مقصدی فصل ہے جو نہ صرف اپنے خوردنی تیل اور غذائی اجزا سے بھرپور چارے کے لیے اگائی جاتی ہے بلکہ یہ پولٹری فیڈ اور صنعتی خام مال (پینٹس، کھانا پکانے، سیاہی، بائیو فیول، ٹیکسٹائل اور مسوڑوں)میں بھی نمایاں طور پر حصہ ڈالتی ہے ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان سویا بین درآمد کرتا ہے پاکستان کو سویا بین کی کاشت میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اداروں نے کوئی اچھی قسم تیار نہیں کی ہے جس کی وجہ سے یہاں محدود مقدار میں سویابین کاشت کی جاتی ہے حکومت کو مقامی انواع یا نسل پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہمارے گھریلو استعمال کے لیے سویا بین موجود ہو اس سے ہمارے درآمدی بل میں بھی کمی آئے گی مگر ہم تو ابھی تک بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے اپنے لوگوں کی بحالی کا کام نہیں کرسکے۔

 

اس سال ہمارے جنوبی علاقوں میں 30 سال کی اوسط میں 500 گنا سے زیادہ بارشیں ہوئیں اور کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر ہوئی جس کی وجہ سے سیلاب نے تباہی مچا دی موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ 14 جون سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بہت دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور بدقسمتی سے بارشوں اور سیلاب کے باعث بڑی تباہی ہوئی تقریبا 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں بارشوں اور سیلاب سے سندھ اور بلوچستان بہت متاثر ہوا پنجاب، خیبرپختونخوا ہ کے بعض علاقے بھی سیلاب سے متاثر ہوئے بارشوں اور سیلاب سے رابطہ سڑکیں تباہ ہوئیں جو ابھی تک بحال نہیں ہوسکیں جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں زیادہ تر آبادی متاثر ہوئی 10 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا رواں سال ہمیں 4 ہیٹ ویوز کا سامنا رہا اور ہیٹ ویوز کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات ہوئے۔ رواں سال 190 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں ہم بری طرح مسائل کی چکی اور غربت کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں آخرہمارا بنے گا کیا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
67925