Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

محسنِ انسانیت ،سرورکائنات  حضرت محمدﷺکی ولادت باسعادت . تحریر : سردار علی سردارؔ

شیئر کریں:

محسنِ انسانیت ،سرورکائنات  حضرت محمدﷺکی ولادت با سعادت . تحریر : سردار علی سردارؔ

بارا ربیع الاول اسلامی مہینوں میں تیسرا متبرک اور اہم  دن ہے ۔اِس ماہِ مبارک میں   نبی آخرالزماں، حبیب ِکبریا، امام الانبیاء، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادتِ باسعادت اور وصالِ پاک ہوا۔آپ ﷺ کی آمد سے دنیا سے جہالت چلی گئی اور انسانیت کو ایک نئی زندگی مل گئی  کیونکہ رحمت دو عالم فخر موجودات، سرور کونین، ہادی مجتبیٰ عالمین کے لئے سراپا رحمت بن کرحضرت آمنہ کی گود میں اتر چکے تھے۔آپﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخ انسانیت کا سب سے عظیم اور سب سے مقدس واقعہ ہے۔ نبی کریمﷺ کا روئے زمین پر تشریف لانا ہی تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل ہے گویا یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی خاطر ہی پیدا فرمائے۔

آج کا یہ دن عالمِ انسانیت اور خصوصاََ عالمِ اسلام کے لئے نیک بختی اور سعادت مندی کا دن ہے کہ اس دن دنیائے انسانیت کے بادشاہ ، رحمت اللعالمین، سراجاََ منیر ،ہادی جز و کل ،امام المتقین  اور خداوندی رحمت کا بے بدل شاہکار  حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس دنیائے میں تشریف لائے۔یہ وہ وقت تھا جب انسان  گمراہی ،ضلالت اور ناامیدی کے گرداب میں گرا ہوا تھا ۔ کوئی کسی کا مدد گار اور غمخوار نہیں تھا  ۔ایک انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا تھا۔گویا عرب معاشرہ گمراہی میں ڈوبی ہوئی تھی۔روحانی اور اخلاقی قدروں کو پامال کیا جاچکا تھا ۔لوگوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی تھی۔اُن میں مختلف قسم کی اخلاقی بیماریاں  سرائیت کرگئی تھیں۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ایک ایسی ہستی کی آمد ہوئی  جس نے حیاتِ انسانی کی کشتی کو بھنور سے نکال کر جاودانی زندگی عطا کی ۔یہ ا اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ اس  نے اپنے  پیغمبرؑ کو رشد و ہدایت کے مقام عظمت و رفعت پر فائز کر کے مبعوث فرمایا۔جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے۔لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ  ٘ (3.164)

ترجمہ: بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالٰی کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمتسکھاتا ہے یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

دنیا کو معلوم ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب معاشرہ کس حد تک پستی کی طرف گرا ہوا تھا ۔ بھائی بھائی کے خلاف  تھا ، انسانیت کی کشتی ظلم و استبداد کے بھنور میں ہچکولے کھا رہی تھی۔اچانک بطخا کی مقدس وادیوں میں ایک آواز گونجی اور سرورِ کونین رحمت اللعلمین کی بعثت کی نوید دی گئی ۔ زمین فخر سے جھوم اٹھی اور آسمان کے ملائک صف بہ صف استادہ ہوکر آپ ﷺ کی مدح و ثنا کی تقدیس ورد کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ احمد جامی نے کہا کہ

 

لاَ یُمکنُ الثَناَ کَماَ کاَنَ حَقَّہُ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

ترجمہ: اے نبی ﷺ آپؐ کی تعریف کا جو حق ہے اُس کو بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔مختصر یہ کہ دنیا میں خدا کے بعد آپ ؐہی عظیم ترین  ہستی ہیں۔

جب آپﷺچالیس سال کی عمر کو پہنچے تو منصب نبوت سے نوازا گیا تو  آپ ﷺنے خدا وندتعالیٰ کا پیغام  لوگوں کو سنانا شروع کیا ۔آپ ﷺ پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹنے شروع ہوگئے۔لوگوں نے آپﷺ سے سوشل بائیکاٹ کیا لیکن رحمت ِ دو عالم خاموش رہے اور اپنے دشمنوں کے خلاف کوئی بھی بری بات نہیں کی بلکہ انہیں دعائیں دیتے رہے۔آپ ﷺکے اعلیٰ کردار کے آگے کوئی تعصب ، کوئی عداوت اور ہٹ دہرمی ٹھر نہ سکی کیونکہ آپ ﷺ خود مشکلات اور مصائب برداشت کرکے بنی نوعِ انسان کی رہنمائی کی، خود پتھر کھائے دوسروں کو دعائیں دئے، خود بھوکا پیاسا رہے دوسروں کو کھانا کھلائے۔یہی وجہ تھی کہ خداوند تعالیٰ نے آپ ﷺ کی زاتِ اقدس کو عالمِ انسانیت کے لئے نمونہ قرار دیا  جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے کہ۔لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔ (33.21)ترجمہ: یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے

تاریخ بتاتی ہے کہ آپ ﷺعالمِ شباب ہی سے اخلاقِ حمیدہ ، عفو درگزر، صبرو تحمل ، صداقت و امانت کا پیکر ہونے کی وجہ سے امین و صادق جیسے عظیم ناموں سے یاد کیا جانے لگا ۔ آپ ؐکے عفودرگزر سے کون واقف نہیں آپؐ نے اُس عورت کی بھی عیادت کی جو آپؐ  پر بلاناغہ کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ جب مکہ فاتح ہوا اور مسلمان فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوگئے تو آپؐ نے ماضی کے تمام تلخ یادوں کو بھول کر عام معافی کا اعلان فرمایا۔قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔ (12.92)

ترجمہ:  آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں۔

اگر حقیقت  کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ کونسی ازیتیں اور مصبتیں نہ تھیں جو کفار کی جانب سے آپؐ  پر نہ کی گئی تھیں اُن کی وجہ سے اپنے وطن کو چھوڑنا  پڑا ، آپؐ  پر خون ریز حملے ہوتے رہے، دوست اور رشتہ دار خاک اور خون میں تڑپتے رہے لیکن آج وہی لوگ آپؐ کے سامنے تھے جنہوں نے آپؐ کو تکلیف دی تھیں یہ بدلہ لینے کا بہترین موقع تھا مگر اس کے باوجود آپؐ نے سب کو معاف کردیا کیونکہ آپؐ محسنِ انسانیت تھے، یہی وجہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کو خلقِ عظیم کے نام سے یاد فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ۔ (68.4)

ترجمہ: آپ ﷺ بےشک اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مکی زندگی پریشانیوں اور تکالیف سے خالی نہیں تھیں۔ہر طرف سے آپ ؐ پر ظلم کیا جاتا تھالیکن آپؐ  کا کریمانہ اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ اُن کا بدلہ لیا جائے۔آپؐ نے لوگوں سے اُلجھنے کی بجائے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مدینہ کے لوگ آپ ؐکے اخلاق حمیدہ سے بہت متاثر تھے جو آپ صلعم کو دیکھنے کے لئے بےچین تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپؐ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مدینہ وارد ہوئےتو مدینہ کے لوگوں نے آپؐ کی آمد کی خوشی میں محبت کے گیت گائے۔

طَلَعَ البَدرُ عَلیَنا   ۔۔            مِن ثَنیاَتِ الوَداعِ

وَجَبَ الشُکرُ عَلیَناَ۔۔            مَا دَعَا للہِ دَاعِ

ایُھاَ المَبعُوثُ فِیناَ۔۔             جِیتُ بِالاَمرِ المَطَاعِ

مولانا محمد جعفر شاہ  پھلواری ، اسلام اور موسیقی، ص 44

ترجمہ: ہم پر وداع کے ٹیلوں سے چاند نکل آیا ہے جب تک دُعا کرنے والا دعا کرتا ہے ہم پر شکر واجب ہے۔ اے وہ ہستی جو ہمارے پاس بھیجی گئی ہے آپ صلعم وہ دین لائے ہیں جو واجب الاطاعت ہے۔

اگر آپ ؐ چاہتے تو عرب کے تمام قبائل اور برادریوں کو اپنی طاقت کے زور سے دینِ اسلام پر جبراََ عمل کرنے پر مجبور کرتے لیکن آپ ؐنے تمام لوگوں کو اپنے اپنے دین اور طریقے پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ یہ ایک ایسا پیغام تھا جو تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے قابلِ قبول تھاکیونکہ اسلامی تعلیمات ایسی ہیں جن میں آپ ؐسے پہلے آنے والے انبیاء اور اُن پر نازل ہونے والی کتب سماوی پر مکمل ایمان اور یقین کا درس ملتا ہے۔ اس طرح اسلام اور توحیدی مذاہب کے درمیان اکثر معاملات پر باہمی رضامندی اور باہم متفق ہونے کی حوصلہ افزائی ملتی ہے۔

ان تمام واقعات اور حقائق سے واضح ہے کہ جناب رسولؐ  کی ذات اقدس پیکر ِ رحمت تھی۔ جس نے اسلام کی صحیح ترجمانی اپنے حسنِ اخلاق سے کی ۔یہی وجہ ہے کہ آپؐ  کا اخلاق بالخصوص عالمِ اسلام اور بالعموم عالمِ انسانیت کےلئے مشغلِ راہ ہے۔ دوست تو دوست اغیار بھی اُن سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

بحیثیت مسلمان  ہمیں نبی کریم ﷺ کے انہیں اوصافِ حمیدہ کو  اپنی زندگی کے لئے مشغلِ راہ بنانا چاہئے  اور اپنے اندر احترامِ انسانیت ، حسُنِ اخلاق،قوتِ برداشت، صبرو تحمل،  رواداری، معافی،اور  اعلیٰ اخلاقی اقدار جیسی اہم صفات پیدا کریں۔یہیں وہ آفاقی اور عالمگیر اصول ہیں جو ہر دور میں ہمارے لئے رہنما ہیں ۔ مسلمان اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کی دائمی تعلیمات کی روشنی میں ایک پرآمن اور مثالی معاشرہ قائم کرتے ہوئے غریبوں اور بےسہارا لوگوں کی مدد  کریں تاکہ اسلام کا حقیقی چہرہ اپنی اصل روح کے ساتھ نظر آسکے ۔  خدا اور اس کے رسول ؐہم سے راضی ہوں اور ہم دین و دنیا  دونوں میں سرخرو اور کامیاب ہوں۔

اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے۔علامہ محمد اقبال ر نے کیا خوب فرمایا۔

بہ مصطفیٰ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است۔

ترجمہ: اگر آپؐ مصطفیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے تمام وجود کو اُس کے لئے وقف کردے اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تیری یہ محبت ابو لہب کی محبت جیسی ہے۔

 

 


شیئر کریں: