Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تنگ آمد بہ جنگ آمد – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

تنگ آمد بہ جنگ آمد – محمد شریف شکیب

چترال کی تمام سیاسی جماعتوں کی ضلعی قیادت نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو طویل اور ناروا لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لئے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مقررہ مدت کے اندر لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں کی گئی تو تمام پارٹیوں کے قائدین اور کارکن منتخب رکن صوبائی اسمبلی کی قیادت میں گولین گول اور ریشن بجلی گھر کے ڈیم سے پانی کی ترسیل روک دیں گے۔ ضلع اپر اور لوئر چترال سے تعلق رکھنے والے سیاسیرہنماؤں نے قومی کاز کے لئے ایکا کرلیا۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پیڈو، شائیڈو اور واپڈا کے درمیان رقم کے لین دین کا تنازعہ ہے اور اس کی سزاطویل لوڈ شیڈنگ کی صورت میں عوام کو دی جارہی ہے۔

 

دونوں اضلاع میں چوبیس گھنٹوں کے اندر صرف چار گھنٹے کے لئے بجلی آتی ہے روزانہ بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے زندگی کے معمولات درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں۔ عمائدین کا موقف ہے کہ گولین گول پاور ہاوس سے 108میگاواٹ اور ریشن پاور ہاؤس سے 2.5میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ چترال کے دونوں اضلاع کی مجموعی طلب تیس میگاواٹ سے بھی کم ہے۔ ان بجلی گھروں کی تعمیر کے وقت عوامی نمائندوں اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ حکام نے عوام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ چترال کی ضرورت پوری ہونے کے بعد بچ جانے والی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ لیکن دونوں پاور ہاؤسز سے بجلی کی پیداوار شروع ہونے کے بعد حکام اپنے وعدے بھول گئے۔اور چترال کے عوام کو طویل لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں جھونک دیا۔مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق چترال میں چترال کے مختلف مقامات پر پانچ سے دس ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ گولین گول اور ریشن پاور ہاؤس سے بجلی کی ترسیل جاری ہے۔ جبکہ دروش کے قریب لاوی کے مقام پر بجلی گھر کی تعمیر کا کام بھی شروع کیاگیا ہے۔

 

پریت کے مقام پر بھی بڑے بجلی گھر کے منصوبے کو قابل عمل قرار دیا گیا ہے۔ ایون، کوغذی، برنس، پرپش، شوگرام، بونی، سنوغر، لاسپور، بریپ، یارخون اور تورکہو کے علاوہ گرم چشمہ کے ایک سے زائد مقامات پر بجلی گھر بناکر توانائی کی قومی ضروریات کو پورا کیاجاسکتا ہے۔ آئین اور قانون کے تحت جس علاقے میں بجلی اور گیس پیدا ہوتی ہے یا تیل نکلتا ہے۔سب سے پہلے اس علاقے کے لوگوں کا اس پر حق ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں ہرکام الٹا ہوتا ہے۔ قومی گرڈ کو سب سے زیادہ بجلی خیبر پختونخوا فراہم کرتا ہے اور اسی صوبے میں سب سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ سوئی گیس بلوچستان کی پیداوار ہے لیکن وہاں کے عوام گیس کی نعمت سے محروم ہیں۔

 

چترال سمیت خیبر پختونخوا کے اکثر پہاڑی علاقے معدنیات سے بھرے ہوئے ہیں۔حکومتی سطح پر ان قیمتی پتھروں اور دھاتوں کا نکالنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ چترال میں سونے، تانبے، اینٹی منی،جپسم، شیلائیٹ، سنگ مرمر، زمرد اور دیگر قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر انہیں نکالنے کا ٹھیکہ چند لاکھ کی فیس لے کر پرائیویٹ کمپنیوں کا دیا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کو اس میں سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی۔ ان غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے لوگ متنفر ہورہے ہیں۔ مقامی ضرورت سے کئی گنا زیادہ بجلی پیدا ہونے کے باوجود چترال کے عوام روشنی کو ترس رہے ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے مالی مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے کے بجائے عوام پر بجلی گرارہے ہیں۔ پیمانہ صبر جب لبریز ہوجائے تو لوگ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو چترال کے پرامن علاقے میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے سے قبل ذاتی دلچسپی لے کر لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
66598