Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہندوکش کے دامن سے چرواہے کی صدا –  چترال میں مذہبی جماعتوں کا مستقبل خطرے میں ۔ تحریر عبد الباقی چترالی

Posted on
شیئر کریں:

ادارہ یا ایڈیٹر کا مراسلہ نگارکی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں!

ہندوکش کے دامن سے چرواہے کی صدا –  چترال میں مذہبی جماعتوں کا مستقبل خطرے میں ۔ تحریر عبد الباقی چترالی

 

مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں کی ناقص کارکردگی اور عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کی وجہ سے چترال میں مذہبی جماعتوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔گزشتہ چار سالوں میں ایم این اے اور ایم پی اے چترالی عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ایم این اے اپنے پسماندہ ضلع چترال کے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں کشمیر، فلسطین اور سودی نظام معیشت پر بے جان تقریر کرتا رہتا ہے۔ مولانا صاحب کو یہ بات مد نظر رکھنا چاہیے کہ آپ کے بے جان تقریروں سے نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا اور نہ فلسطینیوں کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔لہذا آپ مہربانی کر کے اپنے پسماندہ ضلع چترال کی مسائل کی فکر کریں۔آپ نہ کشمیریوں کے نمائندے ہیں اور نہ فلسطینیوں کا۔ آپ کو چترال کے غریب عوام نے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں بھیجا ہے۔

آپ کو اپنے ضلع کے مسائل اور پسماندگی دور کرنے کی طرف توجہ دینے چاہیے۔موجودہ اتحادی حکومت بر سر اقتدار آتے ہی ایم این اے عبد الاکبر چترالی صاحب کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔مگر مولانا صاحب عوامی مفادات کو نظر انداز کر کے اپنے پارٹی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر کے اپنے ضلع کو ترقیاتی فنڈ سے محروم کر دیا۔ ایم این اے صاحب کو اپنے پسماندہ ضلع کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت میں شامل ہوکر مرکزی ترقیاتی فنڈ میں شامل کر کے اپنے ضلع کی تعمیر وترقی کے لئے کردار ادا کرنا چائیے تھا۔مولانا صاحب کو جماعت اسلامی کا نمائندہ بننے کے بجائے چترالی عوام کا نمائندہ بن کر اپنے علاقے کی تعمیر وترقی اور عوامی مسائل حل کرنے کے لئے جہدوجہد کرنا چاہیے تھا۔

 

ایم این اے کے عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موڑکہو کے عوام گزشتہ دو سالوں سے تحصیل موڑکھو میں نادرا آفس کھولنے کے بارے میں کئی بار یاد دہانی کے باوجود تا حال موڑکھو میں نادرا آفس قائم کرنے میں ناکام رہا۔ ایم این اے صاحب کو عوامی مسائل کی طرف توجہ دلانے پر شدید ناراضگی اور براہمی کا اظہار کرتا ہے۔عوام کے مسائل حل کرنا عوامی نمائندوں کی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔اگر آپ عوامی مسائل حل نہیں کر سکتے ہیں تو اس عہدے پر مزید رہنے کا آپ کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا ہے۔لہذا آپ دونوں نمائندے مہربانی فرما کر اپنے حلقے کے عوام پر رخم کر کے اپنے ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے جلدی مستعفی ہو جائیں۔

دو ہزار اٹھارہ کے قومی انتخابات میں چترالی عوام مذہبی جماعتوں پر اعتماد کر کے ان کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کامیاب کیا تھا۔موجودہ عوامی نمائندوں کی ناقص کارکردگی اور عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کی وجہ سے چترالی عوام مذہبی جماعتوں سے مایوس ہو گئے ہیں۔بلدیاتی انتخابات میں چترالی عوام نے مذہبی جماعتوں سے اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے۔موجودہ عوامی نمائندوں کے خلاف عوام میں سخت غم وغصہ پایا جاتا ہے۔جو مذہبی جماعتوں کی قیادت کے آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہیے۔ ان نالائق عوامی نمائندوں کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے چترال میں مذہبی جماعتوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نااہل نمائندوں کی ناقص کارکردگی کا خمیازہ آنے والے قومی انتخابات میں بھگتنا پڑے گا۔جے یو آئی کی صوبائی قیادت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے لوئیر اور اپر چترال میں پارٹی غیر منظم، غیر فعال اور انتشار کا شکار ہو گئی ہے۔

 

کیونکہ جے یو آئی اپر چترال کا ضلعی امیرعرصہ دراز سے پشاور میں رہائش پزیر ہے۔اور پارٹی آمور میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔جبکہ پارٹی کا نائب امیر لوئیر چترال میں مقیم ہے۔جبکہ صوبائی قیادت ان دونوں زمہ داروں سے بار پرس کرنے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔

 

دونوں پارٹی عہددارن ضلع سے باہر رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے کارکنوں کو شدید مشکلات پیش آرہے ہیں۔دونوں پارٹی عہددارن کی غیر موجودگی کی وجہ سے پارٹی پوزیشن روز بروز کمزور ہوتا جارہا ہے۔جے یو آئی کی صوبائی قیادت بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پارٹی کارکنان اور ووٹروں کے رائے کو نظر انداز کر کے من پسند افراد کو پارٹی ٹکٹ دینے پر کارکنوں اور ووٹروں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ اگر اب بھی جے یو آئی کی صوبائی قیادت ہوش کے ناخن نہیں لیا۔ تو پھر چترال میں جے یو آئی کا صرف نام رہے گا۔


شیئر کریں: