Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ہمدردی ۔ بی بی آمنہ نگار بونی اپر چترال

Posted on
شیئر کریں:

ہمدردی ۔ بی بی آمنہ نگار بونی اپر چترال

 

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو  بیاں (خواجہ میر دردؔ)

 

خواجہ میر دردکے اس شعر کی  گہرائی میں جائیں تو  اندازہ  ہو گا کہ وہ   انسانو ں کے ما بین ہمدردی کی  اصلیت ،اہمیت  اور اس کی ضرورت   کوبڑے خوبصورت انداز میں  بیان کیا ہے  ۔  ہمدرددی کے بارے میں تفصیل میں جانے سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ  یہ کیا چیزہے؟  ہمدردی دو  لفظوں   “ہم” اور “درد”  سے مل کر بنا ہے اس  کے معنی  غم خواری یعنی کہ دوسروں کی دکھ درد میں شریک ہو نا ہے۔ عام طور پر  ہمدردی دو طرح کی ہوتی ہیں  ایک وہ ہمدردی (Sympathy)جس میں آپ اپنے نقطہ نظر سے  دوسروں کےجذبات،احساسات اور حالات کو سمجھتے ہیں اور تسلی کے چند الفاظ بول دیتے ہیں۔ اور ایک وہ ہمدردی   (Empathy)جس میں آپ اپنے  آپ کو دوسرے شخص کے جوتوں میں ڈال کر اس کےجذبات، احساسات اور حالات کو سمجھتے ہیں  او ر اس کی درد کو دل سے محسوس کرتے ہیں۔  دوسروں کے جذبات،احساسات اور حالات  کو سمجھنے کے لیے ان  دونوں کی غیر موجودگی  بے حسی (Apathy( کہلاتی ہے ۔

 

ہمدردی کی وہ قسم جس میں آپ کسی  دوسرےکے دکھ اور تکلیف کو اپنے نقطہ نظر سے سمجھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور تسلّی کے چند الفاظ بول دیتے ہیں اس کی تکلیف کم کرنے یا پریشانی دور کرنے میں  بہت کم مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔بلکہ وہ ہمدردردی جس میں آپ اپنے آپ کو اس کی جگہ رکھ کر اس کے دکھ کو اپنے اندر محسوس کر کے  اس کی مداوا کے لیے کوئی عملی قدم اٹھاتے ہیں شاید  ہی سکون کا باعثبن سکتا ہے۔

 

لہذا اس  تحریر کا  مرکز وہ ہمدردی  (Empathy)ہے جو  اپنے آپ کو دوسروں کی جذبات، احساسات اور حالات میں ڈھال کر کی جاتی ہے ۔ یہ  ایک ایسی صلاحیت ہے جو انسانوں کو دوسرے جانوروں سے مختلف بناتی ہے کیونکہ ہمدردی جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جانوروں کا اپنے  بچوں کی  ایک مدت تک پرورش کرنا، ان کو غذا مہیا کرنا اور ان کو دشمنوں سے بچانا انکے   ہمدردی کے حس  کو ثابت کرتا ہے۔ لہذا کسی کے دکھ کو اپنا  دکھ سمجھنا اور درد کو اپنے اندر محسوس کرکے اس کے لیے کوئی عملی کام کرنا ا شرف المخلوقات والی  ہمدردی ہے۔  یہ انسان ہی ہے جو کسی کے دکھ درد  میں شامل ہونے کے لیے   اس کے  زخم کی نو عیت کو  سمجھنے کی کوشش کرتا ہےکیونکہ کچھ زخم با ہر  کے اور کچھ اندر کے لگے ہوتے ہیں ۔ باہر والوں کو ٹانکوں سے سیا جا تا ہے مگر اندر والے زخم کو صرف وقت کا ٹانکا  ہی سی لیتا ہے ۔ اس لیے اصل ہمدردی وہ ہے کہ انسان وقت کے ذریعے ٹھیک ہونے والے زخموں کے بھرنے میں کسی کی مدد کریں۔ کچھ ایسا عملی کام کریں جو اس کو اس وقت سے  نکلنے میں  مدد کریں۔

 

احساس ہمدردی کو اپنے اردگرد لوگوں میں پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے خود مثال بننا ہے۔اور اپنے اندر وہ خصوصیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ایک ہمدرد شخص کے اندر پائی جاتی ہیں۔

اپنے اندر اس قسم کی ہمدردی  کو فروغ دینے کے  لیے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

 

  • سب سے پہلے اپنے آپ کو پرکھنا اور اپنے اندر ہمدردی کے عناصر کی شناخت کرنا اور ان کو تقویت دینا۔
  • اپنے اندر غور سے سننے کی عادت کو فروغ دینا۔اور کسی کو سنتے وقت اپنے آپ کو پوری طرح متوجہ رکھنا۔
  • کسی کے ساتھ ہمدری کرتے وقت اس کو اپنےجذبات کا کھل کے اظہار  کرنے  دینا اور اشاروں اشاروں میں  اپنے وجود اور توجہ کی  تصدیق  بھی کرنا ۔
  • اس کے سامنے اپنے ذہنی او ر جسمانی وجود کو یقینی بنانا۔
  • اپنی وجود اور توجہ کو یقینی بنانے کے لیے دورانِ گفتگو  سوالات پوچھنا ۔
  • رازداری اور اعتبار کو یقینی بنانا اور ہر بات انتہائی سوچ سمجھ کر کرنا۔
  • کسی بھی بات  پرغیر فیصلہ کن  رویہ اختیار کرنا ۔
  • اس کی تکلیف اور پریشانی کو دل سے محسوس کرنا۔

ذکر شدہ نکات پر عمل کر کے ہم  اپنے اندر ہمدردی کا وہ احساس پیدا کر سکتے ہیں جو کہ کسی کو مشکل وقت اور حالت سے نکلنے میں مدد گار ثابت  ہو سکتاہے۔ اس کے علاوہ  بھی ہمدردی کے بہت سے فوائد ہیں جن سے زیادہ تر لوگ واقف نہیں ہیں۔مثال کے طور پر یہ  مضبوط تعلقات بنانے، تناؤ کو کم کرنے، اور جذباتی بیداری بڑھانے کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک ہے۔اس کا احساس خود کو اور دوسروں کو انسانی زندگی پر انسانی رویے اور عمل کے اثرات کو سمجھنے کی صلاحیتپیدا کرتی ہے ۔انسانی جذبے اور رویے میں موجود اس حس کو اہمیت دینا اس دور کی ایک اہم ضرورت ہے ۔کیونکہ  اس دور میں اس کا وجود ختم ہو تا جا رہا ہے۔

 

اس تحریر  کا خاتمہ علامہ محمد اقبال کے اس  شعر سے ہو گی کیونکہ میرے خیالات  اس  شعر میں بیان کردہ خیالات کے ساتھ متفق ہیں۔

خدا کے عاشق تو  ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا(علامہ اقبا لؒ)

آپ کے خیالات۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
66447