Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کتو ں کا اجتماع ۔ عبد الباقی

شیئر کریں:

کتو ں کا اجتماع ۔ عبد الباقی

پچھلے دنوں پیدل کہیں جارہا تھا۔ راستے سے ہٹ کر ایک ویران جگہے میں بہت بڑی تعداد میں کتے جمع ہو رہے تھے۔ ان میں مختلف رنگ و نسل کے کتے موجود تھے۔ ان میں بعض ایسے بھی تھے جو چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ ٹولیوں کی شکل میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ بہت خوش اور پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔ تھوری دیر بعد باقاعدہ جلسے کا آغاز ہوا۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض السیشن نسل کے ایک نوجوان سفید کتے نے سنبھالے۔ اس کے بعد اسٹیج سیکرٹری نے لیبرڈاک نسل کے درمیانی عمر کے کتے کو خطبہ استقبالیہ پیش کرنے کی دعوت دی۔ لیبر ڈاک نے مائک سنبھالتے ہوئے حاضرین کا پرجوش انداز میں شکریہ ادا کیا۔ جلسے کے اعراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔اس کے بعد سٹیج سیکرٹری نے دوسرے مقرر ڈاکار نسل کے کالے کتے کو اسٹیج پر بلایا۔ ڈاکار نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہایت پرجوش انداز میں نعرے لگائے کہ ”بھیڑیوں کے چال ناکام نا مراد، کتے زندہ باد“ تو تمام چھوٹے بڑے کتوں نے دُم ہلا کر ان کو خراج تحسین پیش کیے۔ ڈاکار نے تفصیل کے ساتھ بھیڑیوں کے چالوں اور درندگی سے حاضرین کو آگاہ کیا۔

 

حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہمارے آپس کا اتحاد اور اتفاق برقرار رہے گاتو بھیڑیے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔اتحاد و اتفاق سے نہ صرف ہماری اپنی جانوں کاتحفظ ہوگا بلکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی محفوظ ہوجائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی تقریر ختم کردی۔ تیسرے مقرر نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پپہلے زمانے میں ہمارے ایک ہی دشمن ہوا کرتے تھے یعنی بھیڑیے۔ لیکن اب انسان بھی ہماری نسل کا دشمن بن چکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہماری برادری کو خوراک میں زہر ڈال کر مروا دیا جاتا ے۔پہلے زمانے کے لوگ کتوں سے محبت کرتے تھے اور گھروں میں کتے پالتے تھے۔ اچھے کھانے کھلاتے تھے۔ آج کل کے لوگ گھروں میں کتا پالنا تو دور کی بات ہے محلے کے گلیوں میں بھی ہمیں سکون سے رہنے نہیں دیتے۔ آج کا انسان بہت ہی مطلب پرست اور مکا ر ہے۔ اپنے سوا کسی دوسرے جانور پر رحم نہیں کرتا۔ پچھلے زمانے کے لوگ دسترخوان پر بچے ہوئے روٹی کے ٹکڑے اور ہڈیاں محلے کے گلیوں میں آوارہ کتوں کو ڈال دیتے تھے جو ہم کھا کر اپنا گزر اوقات بسر کرتے تھے۔ آج کل ہم ان ٹکڑوں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔

 

بھوک اور غربت کی وجہ سے کتوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور قوت برداشت بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس وجہ سے کوئی کتا کسی بندے کو کاٹ لے تو ملک میں قیامت آجاتی ہے۔ کتوں کی پوری نسل کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ ہمیں افوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی سے کتنے لوگ مارے جاتے ہیں ان دہشت گردوں کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ ہم پاکستانی کتے بہت بدقسمت ہیں کہ ہم اس ملک میں پیدا ہوئے۔ کاش ہم یورپ میں پیدا ہوتے تو نہ جانے ہماری کتنی زیادہ عزت و احترام ہوتا۔ اس ملک میں جتنا لوگ اپنے والدین کا احترام کرتے ہیں اس سے زیادہ یورپ کے لوگ کتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اب ہمارا انسانوں کی بستی میں رہنا مشکل ہوچکا ہے۔ لہٰذا میں تمام برادری والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے چھوٹے موٹے اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپنی جانوں کی حفاظت اور اپنی آنے والی نسلوں کی جانوں کو بچانے کی فکر کریں۔ میں اس سے زیادہ آپ کا قیمتی وقت نہیں لینا چاہتا، خدا حافظ۔

 

اس کے بعد اسٹیج سیکرٹری نے چوتھا مقرر چھوٹے قد کے خاندونی کو اسٹیج پر بلایا۔ مسٹر خاندونی نے سب سے پہلے حاضرین مجلس کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے دور دراز علاقوں سے یہاں تشریف لائے اور اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا۔خاندونی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھیڑیوں کے ساتھ ہماری دشمنی پرانی ہے۔ ہم بھیڑیوں کا مقابلہ اتفاق و اتحاد سے باآسانی کرسکتے ہیں مگر ہم سب مل کر بھی انسانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ انسان دنیا کا طاقتور ترین جانور ہے اور دنیا میں انسان کاراج ہے۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں جلد از جلد اپنے لیے ایک الگ کتوں کی بستی کے نام سے بستی قائم کرنی چاہیے تاکہ وہاں ہم آزادی اورخودمختاری کے ساتھ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکیں اور ہماری آنے والی نسلیں بھی محفوظ ہوں۔اس کے ساتھ ہی خاندونی نے اپنی تقریر ختم کردی۔

 

آخر میں صدارتی خطاب کے لیے بوڑھے کتے کو دعوت دی گئی۔ بوڑھے کتے نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے مسٹر خاندونی کے زرین خیالات سے اتفاق کیااور سراہتے ہوئے ان کی تجاویز اور قیمتی مشوروں کو آنے والی نسلوں کے لیے مشغل راہ قرار دیا اور فوری طور پر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جوکہ مختلف نسل کے کتوں پر مشتمل ہوگا۔ کمیٹی چند روز کے اندر کتوں کی بستی کے لیے جگہے کا تعین کرے گی اور ان کا فیصلہ تمام کتے برادری کے لیے قابل قبول ہوگا۔ اس طرح دعائیہ کلمات کے ساتھ یہ پر وقار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
اور میں بھی اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔


شیئر کریں: