Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شکر گزاری کی کمی- تحریر: گل عدن

Posted on
شیئر کریں:

شکر گزاری کی کمی –  تحریر: گل عدن

سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ یہ تحریر معاشرے کے ان تیس فیصد عوام کے لئے نہیں ہے جو غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی گزار رہی ہے۔جن کو ایک وقت کا کھانا ملنا بھی اپنی خوش قسمتی لگتی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا رونا بنتا ہے ۔مگر پھر بھی یہ لوگ روتے نہیں ہیں یا اتنا نہیں روتے کہ انکا رونا پوری قوم کے لئے نحوست شمار ہو۔ یہ تحریر ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں اللہ نے سب کچھ نہ سہی مگر بہت کچھ دے رکھا ہے مگر انکا رونا ختم ہونے میں نہیں آرہا ۔ایک کے بعد ایک چیز کی خواہش، ایک کے بعد ایک چیز کی کمی انکو رلائےرکھتی ہے ۔  ہم نے منحوس کا فقط لفظ سنا ہے لیکن نحوست کا اصل مطلب کیا ہے یہ ہم نہیں جاننا چاہتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ہی وہ منحوس لوگ ہیں جن کی وجہ سے قوموں پر عذاب نازل ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات کی شکل میں مصیبتیں آتی ہیں۔ہم جیسے ناشکر لوگ جن کا کام غم ، خوشی، مصیبت، عافیت، تنگی خوش حالی غرض ہر حال میں صرف رونا ڈالنا ہے ،یہی” رونا ” نحوست ہے ۔۔ماضی میں کتنی قومیں اپنی ناشکری کی وجہ سے عبرت کا نشانہ بنیں ہم کیوں بھول جاتے ہیں؟ نہ شکر کی الف ب ہمیں آتی ہے نہ صبر کا قائدہ ہمیں سکھایا گیا ۔ صحیح کہا ہے کسی نے کہ جو انسان رب کا شکرگزار نہیں بن سکتا وہ انسانوں کا شکریہ کیسے ادا کر سکتا ہے۔دراصل ہم مجموعی طور پر بیمار ذہنیت کے لوگ ہیں ۔یہ ناشکری ایک خطرناک بیماری ہے جسکی تشخیص اور علاج وقت پر نہ ہو تو بربادی ہی مقدر بن جاتی ہے۔

سائنس نے بہت ترقی کی ہے اتنی کہ بڑی سے بڑی بیماری کا علاج ممکن ہے آج۔ لیکن میری ایک حسرت ، حسرت ہی رہے گی کہ کاش اے کاش کوئی ایسا آلہ ایجاد ہوتا جس سے کوئی ڈاکٹر کوئی معالج کسی مریض کو یہ بتا سکتا کہ آپ میں نہ وٹامن کی کمی ہے نہ آئیوڈین کی،نہ کیلشیم کی کمی ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کی کمی’ زیادتی ، بس اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے” شکر گزاری” کی کمی ۔اور اگر کسی چیز کی زیادتی ہے تو صرف اور صرف” ناشکری “کی زیادتی ہے۔ ہر وقت مہنگائی کا رونا رونے والے ذرا ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ اتنی مہنگائی ہونے کے باوجود آپ کے گھر کا چولہا جل رہا ہے ،یہ کتنی بڑی نعمت ہے ۔اتنی مہنگائی کے باوجود آپکے جیب میں سودا سلف کے پیسے ہیں ۔۔ یہ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے آپ پر۔ اتنی مہنگائی کے باوجود آپکو اپنی ضرورت کے لئے کسی کے آگے ہاتھ نیہں پھیلانا پڑ رہا ہے ۔کیا یہ سب الحمداللہ کہنے کے لئے کافی نہیں ہے؟؟؟

 

بچپن میں حیرت ہوتی تھی کہ من و سلوی کو ٹھکرانے والی قوم کیسی ہوگی،آج سمجھ آرہا ہے کہ وہ مخلوق ایسی ہی ہوگی ۔ سرکش، ناشکر خود غرض اور حریص ۔ دراصل حرص ہی وہ چیز ہے جو آپکو ناشکرا بنا دیتی ہے آپکے آنکھوں میں لالچ کی ایسی پٹی باندھتی ہے کہ آپکو اللہ کی بے شمار نعمتیں، احسانات جو اللہ نے ہم جیسے ناشکروں پر کئے ہیں نظر ہی نہیں آتے ۔ ایک شکرگزار بندہ تو اللہ کی احسانات کا حساب لگا ہی نہیں سکتا لیکن ایک ناشکرے کے لئے اسکا صحت مند وجود، اسکے سر پہ چھت ،اسکے جیب میں پیسہ، اسکے گھر میں ہر وقت جلتا چولہا، اسکے تن پہ برانڈڈ کپڑے اور معاشرے میں اسکے داغدار اور گناہ گار وجود کی عزت جو اللہ کی دین ہے، کسی گنتی میں ہی نہیں آتے ۔ اور مجھے اس درجہ ناشکروں سے خوف آتا ہے۔ کیونکہ عذاب اس درجہ ناشکری پر ہی نازل ہوئے ہیں۔کھبی کہیں پڑھا تھا کہیں آج یاد آ رہا ہے کہ عبرت ناک کسی کی موت نہیں بلکہ ہماری زندگیاں ہیں۔واقعی ۔وہ زندگیاں جو کسی کی جوان اموات سے ناگہانی آفات سے لا علاج امراض سے اور سب کے علاوہ باوجود اللہ کی اس قدر نافرمانی کے اپنی پرآسائش زندگی سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکی ۔

 

عبرت ناک تو واقعی ہماری زندگیاں ہیں ۔منٹو کے ایک کردار نے خوب کہا ہے کہ دکھ تو اس بات کا ہے کہ زندگی کتوں والی ملی مگر حساب انسانوں والا ہی دینا پڑے گا ۔یہاں پر منٹو سے اختلاف اتنا کروں گی کہ زندگی کسی کو بھی کتوں والی نہیں ملتی ہاں البتہ اپنی خود غرضی، بدنیتی لالچی طبیعت اور ناشکری کی بنا پر کچھ لوگ خود سمیت اپنے ساتھ رہنے والوں کی زندگی بھی کتوں والی بنا دیتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لئے سوچنے کی بات یہ ہےکہ اگر حساب انسانوں والا ہی دینا پڑے گا تو کیوں نہ زندگی بھی انسانوں والی گزار لیں ۔ رونا ڈالنے کے بجائے الحمداللہ کہنا سیکھ کر۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
65689