Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ۰ ”ایک شگوفہ مرجھا گئی“۔ محمد جاوید حیات 

Posted on
شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان ۰ ”ایک شگوفہ مرجھا گئی“۔ محمد جاوید حیات

ہم اولاد والوں کو جب کسی کی اولاد کی جداٸی کی خبر ملتی ہے تو تڑپ اٹھتے ہیں ان کا درد اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں اور نہایت کرب میں کچھ لمحےکچھ دن گزار دیتے ہیں ۔آج میرے پاس چترال کی ایک کلی گشن انسانیت کی ایک شگوفہ کی جداٸی کا دلخراش خبر بلکہ داستان ہے زینب بختیار ابھی میٹرک میں امتحان دے چکی تھی نتیجے کا انتظار تھا کہ یہ شگوفہ پھول بننے سے پہلے مرجھا گٸی ۔۔انسان فانی ہے ۔انسان معمہ عجوبہ ہے انسان اپنی مختلف حیثیت رکھنے والی مخلوق ہے ۔کبھی ماں کے جسم میں ان سے انتظار کراتا ہے کہ کب دنیا میں آۓ۔ کبھی دنیا میں آ کر کسی سے دل، نیند، سکون اور زندگی تک چھین لیتا ہے اچھا خاصا انسان اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی کا ہوجاتا ہے ۔اس کی ایک تبسم ایک جنبش لب پہ زندگی نچھاور کرتا ہے ۔پھر اس کی تربیت اس کی باتوں کی مٹھاس اس کی حرکات و سکنات اس کی شرارتیں اس کی اداکارییاں آتی ہیں اور ماں باپ کی زندگی خود ناٹک بن جاتی ہے ۔۔زینب بختیار اپنے والدین کی اکلوتی تھی۔۔۔ اور بیٹی تھی ۔۔گھر کی رونق ۔زینب سچ مچھ شہزادی تھی ڈاکٹر شہزادہ بختیار الدین کی بیٹی تھی ۔زینب ساری ممکنہ انسانی اوصاف لے کے دنیا میں آئی تھی خالق کاٸنات نے اسے صلاحیتوں سے بھر پور کرکے دنیا میں بھیجا تھا ۔اپنا باصلاحیت بندہ بنا کے ۔۔

ZAINAB BAKHTIAR

نازو نعم میں پلی یہ شہزادی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت محنتی تھی اپنے سکول کو ٹاپ کرتی ۔اپنے اساتذہ کے دلوں کی دھڑکن تھی اپنے والدین کی آنکھوں کا تارہ اور اپنی سہیلیوں کی راحت کا سامان تھی ۔زینب شہزادی تھی لیکن انسانیت کے اعلی مقام پہ تھی اپنی شہزادگی نہ جتاتی ۔سب سے ملنساری اور خاکساری کے ساتھ ملتی ۔گھر سنبھالتی والدین کا سہارہ بنی تھی ۔ان کے کھیل کے دن تھے لیکن وہ اپنی عمر سے بہت آگے گئی تھی ۔مہذب و محترم تھی ۔بزرگوں کو ٹوٹ کر احترام دیتی اور اپنا گرویدہ بناتی ۔۔زینب نے میٹرک کا امتحان دیا جب نتیجہ آیا تو وہ پورے چترال کو ٹاپ کر چکی تھی ۔اس کے نمبر 1049 تھے آپ Fcps دروش میں پڑھتی تھی۔۔ ہر سننے والا، جاننے والا، دوست ساتھی اساتذہ سب افسردہ تھے کہ زینب ایک خلا چھوڑ گئی ۔اگر وہ اس لمحے زندہ ہوتی تو اس کی نشیلی آنکھوں میں چمک اتر آتی۔ جا کے اپنی امی کے گلے لگتی ۔۔چیخ کر کہتی ۔۔”امی میں پورےچترال کو ٹاپ کر گئی“ ۔۔ماں ان کو سینے سے لگاتی اس کو چومتی۔۔ شاباشی دیتی۔۔۔ اللہ کا شکر ادا کرتی ۔۔۔ زینب جا کے اپنے بابا سے لپٹ جاتی بابا کو فخر ہوتا اس کی پیشانی چومتا۔۔ اس پہ فخر کرتا ۔وہ لمحے کتنے یادگار ہوتے ۔قیمتی ہوتے ۔یہ شگوفہ کھل جاتی ۔۔ان کے مستقبل کے خواب دیکھے جاتے ۔پلینگ ہوتی۔۔۔ دعاٸیں دی جاتیں ۔۔دوست احباب کے فون آتے ۔تہنیت کا سلسلہ ہوتا ۔۔ آج زینب کا نتیجہ آیا لیکن زینب نہیں آئی ۔۔اللہ کے پیاری بندی اللہ کے پاس چلی گٸ ۔اپنے پیچھے اس عارضی دنیا کی کامیابیاں چھوڑ گئی ۔افسوس چھوڑ گئی ۔آرزو چھوڑ گئی ۔ایک یاد چھوڑ گئی جو دامن دل چھوڑے گی نہیں ۔۔

زینب چترال کی بیٹی تھی ۔قابل فخراور پیاری بیٹی ۔۔ان کی زندگی پیاری تھی موت بھی پیاری لگی اس لۓ کہ جو موت اپنے پیچھے افسردگی چھوڑ جاۓ وہ پیاری ہوجاتی یے ۔زینب یقینا اپنے والدین اور پیاروں رشتہ داروں کے دلوں کی دھڑکن تھی لیکن بیٹیاں سانجی ہوتی ہیں اس لۓ وہ پورے چترال کو افسردہ کر گئی ۔سوشل میڈیا میں جن بچوں کی کامیابیوں کا ذکر ہے وہاں زینب کی جداٸی کا ذکر ہے ۔زینب پھول تھی مرجھا گئی چاند تھی ڈوب گئی۔آرسی تھی ٹوٹ گئی یہی انسان کے فانی ہونے کی مثال ہے ۔زینب بختیار بڑے گھر کی بیٹی تھی اس کے لۓ ہر کوٸی افسردہ اس لۓ ہے کہ وہ اچھی بچی تھی بہت اچھی ۔اچھے لوگ تخفے کے طور پر دنیا میں آتے ہیں اور سزا کے طور پر ہم سے چھینے جاتے ہیں ۔ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ چترال کی خدمت کرتی اور علاقے کا نام روشن کرتی ۔دنیا میں عظیم لوگوں پر آزماٸشیں آتی ہیں کیونکہ ان میں اس آزماٸش کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔زینب کے والدین کو اس سخت آزماٸش میں صبر کا بدلہ ضرور ملے گا ۔۔اللہ ان کو اپنی پیاری جنت میں مقام عطا کرے


شیئر کریں: