Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ بوڑھی ماں ۔ تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔ بوڑھی ماں ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

شام ڈھلے جب رات کی دلہن تیزی سے اپنی سیاہ گھنیری زلفیں شہر پر تیزی سے پھیلا کر دن کے اجالے کو چاٹ رہی تھیں سورج تانبے کی پلیٹ کا رنگ دھارے مغرب کے اُس پار غوطہ لگا رہا تھا میں دن بھر کا تھکا ہا را اپنی گلی میں داخل ہوا سارا دن مختلف مزاج کے لوگوں سے ملنے ان کی باتیں مسائل سننے کے بعد میرے اعصاب شدت سے آرام طلب کر رہے تھے میں آرام دہ بستر کے تصور سے گھر کے سامنے رکا تاکہ آرام کر کے اپنے بکھرے منتشر اعصاب کو نارمل کر سکوں میں کار سے اُتر کر اپنے گھر کے مین گیٹ کی طرف بڑھا تو گلی کا سیکورٹی گارڈ تیزی سے میری طرف لپکا اُس کا اِس طرح بلا اجازت میری طرف آنا نارمل حالات کی نشاندہی نہیں تھا کیونکہ عام حالات میں وہ اس طرح نہ کرتا تھا میں ڈور بیل بجا کر رک گیا اوراُس کی طرف اسفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا سیکورٹی گارڈ شرمندہ شرمندہ سا میرے قریب آکر جھک کر بولا سر میں آپ کو بلکل بھی تنگ نہیں کر نا چاہتا تھا اور آپ جانتے بھی ہیں کہ میں نے کبھی بلا وجہ آپ کو تنگ بھی نہیں کیا لیکن سر پچھلے کئی دنوں سے ایک معذور بوڑھی عورت ویل چئیر پر آپ سے ملنے آتی ہے آپ گھر پر موجود نہیں ہو تے وہ آپ کا پتہ کر کے چلی جاتی ہے

 

آج جب آئی اور آپ سے ملاقات نہ ہوئی تو میرے پاس آکر بولی بیٹا میں ایک بیوہ معذور پریشان عورت ہوں بہت بڑی مصیبت میں ہوں خدا کے لیے میری مدد کرو اور میری ملاقات پروفیسر صاحب سے کرادو۔شروع میں تو میں نے ٹالنے کی بہت کو شش کی لیکن بوڑھی عورت منتیں ترلے کر نا شروع ہو گئی بلکہ زاروقطار رو نے لگی کہ کاش میرا بیٹا ہوتا تو وہ میری مدد کرتا اُس کی پریشانی دیکھ کر سر میں نے اُس کو اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا لیا ہے اگر آپ اجازت دیں تو اُس کو آپ کے پاس لے آؤں ابھی آپ تھوڑا آرام کر لیں تاکہ بعد میں اُس کو لے آؤں میں نے تھوڑا دور اُس کے چھوٹے کمرے کی طرف دیکھا جہاں دروازے سے ایک بوڑھی عورت کا چہرہ جھا نک رہاتھا بیچاری امید بھری نظروں سے ہمیں دیکھ رہی تھی اُس کی حالت زار دیکھ کر میں نے اشارہ کیا کہ جاکر ابھی اُس پریشان حال عورت کو لے کر میرے پاس آؤ میں نے سوچھا بیچاری کی بات سن کر پھر آرام کر لوں گا میرا دل کہہ رہا تھا کہ آنے والی عورت واقعی بہت زیادہ پریشان ہے میرے ہاں کر نے پر سیکورٹی گارڈ دوڑتا ہوا گیا اور جا کر ویل چئیر پر موجود بوڑھی عورت کو لے کر میرے پاس آگیا میں نے دروازہ کھولا گھر میں چائے پانی کا کہا اور کرسی پر بیٹھ کر انتظار کر نے لگا تھوڑی دیر بوڑھی عورت میرے سامنے آگئی وہ ممنون نظروں اور الفاظ کے ساتھ میرا شکریہ ادا کر رہی تھی

 

میں شفیق نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ میں نے اُس کو بولنے کا بھر پور موقع دینا چاہتا تھا تاکہ اُس کو احساس ہو کہ میں نے اُس کی بات تو جہ دھیان سے سنی ہے ساتھ میں چائے پانی وغیرہ سے اُس کی تواضع بھی کر نا چا رہا تھا بوڑھی عورت نے بات چیت کا آغاز کیا بیٹا میں آپ سے بہت شرمندہ ہو ں پچھلے کئی دن سے امید کی کرن کی تلاش میں آپ کے گھر کے چکر لگا رہی ہوں میں اس بھری کائنات میں آسمان کے نیچے اکیلی ہوں اور میری جوان بیٹی ہم دونوں کے علاوہ اِس جہاں میں ہمارا کوئی نہیں ہے میں سکول ٹیچر ہوں پینتیس سال سے گورنمنٹ سکولوں میں نوکر ی کر کے اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پال رہی ہوں میرا مسئلہ پریشانی کوئی اور نہیں میری بیٹی ہے میری حالت زار پریشانی کی وجہ میری بیٹی ہے میرا دشمن کوئی اور نہیں میرا اپنا ہی خون ہے جس نے میری زندگی کو جہنم سے بڑھ کر عذاب ناک بنا کر رکھ دیا ہے میں سمجھا بوڑھی عورت کی بیٹی کسی عشق معاشقے کے چکر میں پڑی ہو گی لہذا بولا آپ اُس کی شادی اُس کی مرضی کی جگہ کیوں نہیں کر دیتیں اس کی زندگی ہے اُس کو اپنی مرضی سے گزارنے دو تو بیچاری بولی جب تک آپ میری پوری بات نہیں سنیں گے

 

آپ کو میرے مسئلے کی سمجھ نہیں آئے گی لہذا برائے مہربانی میری ساری بات توجہ اور تفصیل سے سن لیں اگر میری بیٹی اپنی پسند کی شادی کر لے تو میں تو شکرانے کے نوافل پڑھوں میں تو اُس کو ہر روز کہتی ہوں کہ تم جس سے شادی کر نا چاہتی ہو کرو اپنی زندگی کا آغاز کرو لیکن اُس کے مستقبل کے حوالے سے خیالا ت منصوبے بہت مختلف ہیں میں تو اُن والدین پر رشک کر تی ہوں جن کی بیٹیاں جوان ہو کر کہتی ہیں کہ میں فلاں لڑکے کو پسند کرتی ہوں میری اُس سے شادی کر دیں میرے حلقے میں اگر کسی دوست کی بیٹی ایسی فرمائش کرتی ہے تو میں فوراً مشورہ دیتی ہوں کہ اِس کی مرضی کی شادی کر ا کے اپنی جان چھڑاؤ لیکن میرے ساتھ تو مسئلہ ہی کچھ اور ہے میں پریشان نظروں سے بوڑھی ماں کی طرف دیکھ رہا تھا جو باطنی کرب کی وجہ سے لرز رہی تھیں بوڑھی عورت ماں کی بے بسی مجھے بھی کاٹنے لگی کہ بیوہ ماں جس کی ایک جوان بیٹی ہے وہ بڑھاپے میں ماں کا سہارا بننے کی بجائے اُس کو در در کے دھکے کھانے پر مجبور کر رہی ہے میں اِس کیس کو عام سا عشق معاشقے کا مسئلہ ہی سمجھ رہا تھا لیکن یہاں تو معاملہ اُلٹ ہی نکل رہا تھا میں بولا ماں جی آپ کی بیٹی کو کوئی لڑکا پسند نہیں آتا تو ماں نے مجھے حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے پر مجبور کر دیا نہیں بیٹا وہ اب تک سات لڑکوں کو پسند اور منگنیاں کر چکی ہے لیکن کچھ عرصے بعد ہی منگیتر سے بور ہو کر اُس کو ٹھکرانے کا اعلان بغاوت کر دیتی ہے کہ میرا اِس کے ساتھ گزارا نہیں ہے سات منگنیاں توڑ چکی ہے اِس کا مطلب تمہاری بیٹی نفسیاتی مریضہ ہے یہ تو ابنارملٹی پاگل پن ہے لڑکیوں کی تو جان جاتی ہے کہ وہ ہر ممکن اپنی منگنی رشتے کو بچانے کی کو شش کرتی ہیں یہ کیسی عجوبہ لڑکی ہے جو پے در پے سات منگنیاں اپنی مرضی کی کر کے توڑ کر اگلے عاشق کی طرف بڑھ جاتی ہے کیس بہت دل چسپ ہو گیا تھا میں دل،چسپ نظروں سے ماں کی طرف دیکھ رہا تھا پھر میں بولا ماں جی واقعی حیران کن مسئلہ ہے آپ بتائیں آخر آپ کی بیٹی کو کوئی نفسیاتی مسئلہ آسیبی جنات کا سایہ یااور کیا ہے تو ماں بولی بیٹا میری بیٹی بلا کی حسین ہے و جمیل خوبصورت لڑکی ہے اُس کا بے مثال حسن ہی اُس کا دشمن ہے۔ (جاری ہے)


شیئر کریں: