Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

واقعہ کربلا ۔ تحریر صوفی محمد اسلم

Posted on
شیئر کریں:

واقعہ کربلا ۔ تحریر صوفی محمد اسلم

دس محرم یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالی عرش، زمین،کرسی،چاند تارے تخلیق کیے گئے۔ یہ وہ دن ہے جس دن آدم علیہ السلام کے توبہ قبول فرمایا گیا، یہ وہ دن ہے جس دن ابراہیم علیہ السلام کو اگ نمرود سے نکالا گیا اور اسی میں یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی بخشی گئی وغیرہ وغیرہ ہزاروں واقعات اور کائنات کے تقریبا اکثر فیصلے اسی دن یعنی دس محرم میں ہوئے ہیں مگر حضرت حسین نے دس محرم 61ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680 ء کوکربلا کے پبتی ریت میں حق کے خاطر اپنے خاندان سمت قربانی دیکر اس دن کا حوالہ ہی بدل ڈالا۔ آج دس محرم کو سب حضرت حسین کے شہادت کے دن کے طور پر یاد کرتے ہیں ، حق اور باطل کے ٹکراؤ کے دن طور پر مناتے ہیں ۔

 

اس واقعہ کے بارے جانے کیلئے تاریخ کربلا کو جاننا ہوگا اور اس دن کی اہمیت جاننے کیلئےحضرت حسین اور یزید کے شخصیت اور انکے کردار کے بارے میں جانا ضروری ہے۔ حضرت حسین جو کہ رسول اللہ ﷺکے چھتی شہزادی جنت کی عورتوں کے سردار حضرت فاطمہ کے چشم چراغ تھے۔ شیر خدا حضرت علی کے صاحبزادے اور رسول اللہ کے نواسے تھے۔ یہ وہ شخصیت تھے جو رسول اللہ کے زیر سرپرستی میں جوان ہوئے۔ یہ وہ نوجوان تھے جو براہراست رسول اللہﷺکی دست شفقت میں اور رسول کے انگلی پکڑ کر پلے بڑھے تھے۔ جس کی تربیت خود رسول اللہ نے کیا تھا، یہ وہ نوجوان تھے جو رسول اللہ کے چادر میں لپیٹے رہتے تھے۔ جسے رسول اللہﷺاپنے کندھوں پر اٹھاتے تھے ۔ جس کی محبت میں رسول اللہ خطبہ بیچ میں چھوڑے تھے ۔ یہ وہ خاندان تھے جس کے گھر کا دروازہ مسجد نبوی کے اندر کھولتے تھے۔ رسول اللہ نے حضرت حسین اور حسن کے بارے میں ارشاد فرما کہ یہ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ مزید فرماکہ کہ جس نے ان سے محبت کیے وہ مجھ سے محبت کیا جس نے مجھ سے محبت کیا وہ اللہ سے محبت کیا جو ان سے بغض رکھا وہ مجھ سے بغض رکھا اور جو مجھ سے بغض رکھا وہ اللہ سے بغض رکھا۔

 

اس کے علاوہ حضرت حسین کی شخصیت بھی قابل رشک تھے۔ جس نے کھبی بھی نماز قاضا نہیں کیا، یہاں تک کہ کربلا میں بھی نماز تہجد پڑھ کر نکلے تھے۔آپ کے زبان پر تلاوت قرآن گھونچتے رہتے تھے ۔ کھبی حرام نہیں کھایا کسی پر ظلم نہیں کیا، شراب نوشی نہیں کیا نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ حصہ لیتے تھے، اسلامی تعلیمات پر پابندی سے عمل پیرا رہتے تھے،زندگی میں پچیس دفعہ حج کیا وہ بھی سواری میسر ہونے کے باوجود پیدل کیے۔ آپ انتہائی بہادر ،دلیر ،پاک دامن اور پرہیز گار شخصیت کے مالک تھے۔

 

حضرت حسین کے برعکس شخصیت یزید کی تھی۔ روایت کے مطابق وہ انتہائی عیاش، اقتدار کے نشے میں بدمست اور شراب اور شکار ان کے پسندیدہ مشغلے تھے۔ زندگی میں ایک دفعہ حج کیا وہ بھی متنازعہ انداز میں۔ یہاں تک کہ مدینہ میں بھی شراب نوشی کی رویات ہیں۔ ظالم ، جابر اور متکبرانہ شخصیت کے مالک تھے۔ کسی بھی لحاظ سے امام حسین کے برابر نہ تھے اور نہ خلافت کے مستحق تھے۔

 

اسلام واحد مذہب ہے جس میں حق کی ہمایت کو جہاد کہا گیا۔ حدیث کا مفہوم ہے باطل کو طاقت سے روکو، اگر طاقت نہیں رکھتے تو زبان سے روکو اگر یہ بھی نہ کرسکے تو دل میں برا سمجھو، یاد رکھو یہ ایمان کے آخری درجہ ہے۔ اسی طرح
حرب کربلا کوئی اشخاص یا اقتدار کے نہیں تھا نہ ہی نظریات کا ٹکراؤ تھا۔ یہ بدی اور نیکی کے فتح کی لڑائی تھی۔ ظلم، بدیانتی ،جبر اور ناانصافی کا داستان ہے۔

حضرت حسین کیسے یزید کے ہاتھوں بیعت کرلیتا جو خود اسے شراب نوشی کرتے دیکھا تھا۔ حضرت حسین اور آپ کے مختصر ساتھیوں پر مشتمل جماعت حق کیلئے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ چھوٹا سا قافلہ کربلا میں تشنگی کو ترجیح دیا جس نظام کو وہ ظلم و نا انصافی قرار دیا تھا ان کے سامنے سرنہیں جھکایا۔ اس وقت وہ جانتے تھے کہ انہیں موت ہی کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر وہ سرجھکا دیتے تو انسانیت بھی رسوا ہوجاتی ، ان کا مذہب اور عقیدہ بھی رسوا ہوجاتا ، اس لیے انھوں نے موت کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔

منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، حضرت حسین نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور انسو بہاکر روئے۔ فرمایا کہ اے اللہ ہم تیرے نبی کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے شہر و دیار سےنکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے رسول اللہﷺکے حرم سے نکالا گیا ہے اور بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی، پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما۔آپ نے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا:لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلا اور آزمائش کی گھڑی میں تو دیندار بہت قلیل مل لینگے۔

اس کے بعد حضرت حسین نے سرزمین کربلا میں زمین خریدا جس کا رقبہ 4×4 میل تھاـ نینوی اور غاضریہ کے باشندوں سے 60ہزار درہم کے عوض خرید لیا اور ان پر شرط رکھی کہ آپ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین دن تک ان کی پزیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔

حضرت حسین کے دشمنوں نے خیموں کا محاورہ کیا، نہر پر فوج کا پہرہ لگایا اور پانی کو امام حسین کے کیمپوں میں داخل ہونے سے روک دیا۔تین دن گزر جانے کے بعد جب امام کے گھر والوں کے بچوں کو پیاس لگنے لگی تو حسین نے یزیدی افواج سے پانی طلب کیا، دشمن نے پانی دینے سے انکار کر دیا، دشمنوں نے سوچا کہ امام حسین پیاس سے ٹوٹ کر ہمارے تمام حالات کو قبول کر لیں گے۔ جب تین دن کی پیاس کے بعد بھی حسین نے یزید کی بات نہیں مانی تو دشمنوں نے حسین کے کیمپوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد امام حسین نے ایک رات دشمنوں سے مہلت طلب کی اور اس رات امام حسین اور ان کے اہل خانہ نے اللہ کی عبادت کی۔

 

حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ اسی طرح لڑائی شروع ہوئی، حضرت حسین نے اپنی گود میں اپنے بیٹے اور بھتیجے کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھا، یزید کی فوج نے پیغمبر اسلام کے نواسے حضرت حسین اور ان کے رفقاء کو لڑائی میں شہید کردیا۔حسین کی شہادت کے بعد، یزید کی فوج نے قافلہ حسین کے 72 ارکان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اجسام پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ کربلا کے صحرا میں شہداء کو گرد آلود و خون آلودہ چھوڑ کر چلے گئے۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد حضرت حسین کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر لیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزار کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید کے دربار شام بھیجا گیا۔

 

اسی جنگ ختم ہوئی حضرت حسین اور آپ کے خاندان تو شہید ہوگئے۔ میدان کربلا اہل بیت اور حضرت حسین کے خون سے رنگین ہوگئے جسے دیکھ کر یزیدی اور اسکے افواج اپنا فتح سمجھ بیٹھے۔ حضرت حسین اور آپ اولاد کو کربلا کے ریگستان میں بے یار مدد گار چھوڑ کر نواسہ رسول کے سر مبارک کو نیزے پر لٹکائے شام میں داخل ہوئے ہوگئے۔ خاتوں جنت کے جگر گوشے کے سر یزید اپنے سامنے دیکھ کر کتنی بڑی کامیابی تصور کی ہوگئ ہائے افسوس اس کے مجلس میں خاموش دیکھنے والوں پر، ان لوگوں پر جو بازاروں میں اہل بیت رسول کے خواتیں کے حرمت پامال ہوتے ہوئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے۔ ان کوفیوں پر افسوس جو عین وقت پر رسول اللہ کے گھر والوں کے ساتھ بے وفائی کرکے اپنے زندگی بچائے خوش ہوئے ہونگے۔ افسوس اس اسمان پر یہ نظارہ دیکھ کر پھٹ نہیں گیا۔ اس زمین پر افسوس ان بد بختوں نگل نہیں لیا۔

 

یہ دنیا ہے طاقتور کے ساتھ تالی بجانے والوں کی بستی، حق اور باطل کا ٹکرانے کے موقع پر خاموشی اختیار کرنے والوں کی جھنڈ ۔ اکیلا رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ حوق گوئی چھوڑ دے۔ واقعہ کربلا ہمیں سبق دیتا ہے کہ حق سے بلاتر کچھ نہیں، نہ خاندان ہے نہ حسب نسب کا لحاظ ہے، جب حق اور باطل کا معاملہ ہو تو حق کیلئے سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے۔ زندگی ہوتی ہے اللہ تعالی کے امانت اگر درست اور خوبصورت انداز میں اسے حوالہ کرنے کا مل جائے تو اپنی خوش قسمتی سمجھ کر حوالہ کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہئیے اور اہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہی کیے جو اپکے شان کے مترادف تھے۔ یزید کے ناکامی نا مرادی اس سے بڑھکر کیا ہوسکتا ہے اہل بیت کے خون میں رنگے اقتدار کو خود انکے اولاد رد کرکے اس کے ناکامی پر مہر ثبت کرچکے ہیں۔

ہزاروں درود و سلام ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپکے اہل بیت پر ۔

وماعلینا الاالبلاغ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
64435