Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ قبر سے معافی ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بزمِ درویش۔قبر سے معافی۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں حسب معمول دفتر پہنچا تو ایک بہت بڑی مہنگی ترین آرام دہ جیپ میری منتظر تھی سیکورٹی گارڈ تیزی سے میری طرف لپکا گرم جوشی سے ملکر جہازی جیپ کی طرف اشارہ کر کے بولا اُس گاڑی میں ایک باجی دو گھنٹے سے آپ کا انتظار کر رہی ہیں آپ پلیز باقی لوگوں سے پہلے اُس سے مل لیں بہت خاندانی اچھی باجی ہیں بہت سالوں بعد آپ سے ملنے آئی ہیں لہذامیرے قدم گاڑی کی طرف بڑھنے لگے میں جیسے ہی قریب پہنچا تو پچھلی سیٹ پر بیٹھی خاتون پر نظر پڑی تو استقبالیہ تبسم کے ساتھ میری طرف دیکھ رہی تھی مجھے چہرہ آشنالگا چند لمحوں کے اندر کی خاتون کو پہچان گیا یہ زاہدہ باجی تھیں جو دس سال پہلے ریگولر میرے پاس آیا کرتی تھیں پھر اچانک غائب ہو گئیں ڈرائیور نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا میں اگلی سیٹ پر برا جمان ہو گیا پر جوش آواز کے ساتھ بولا باجی آپ اچانک کہاں سے طلوع ہو گئی ہیں تو زاہدہ باجی میٹھے لہجے میں بولیں دیکھ لیں بھائی جان میں آپ کو بھولی نہیں جیسے ہی حالات نارمل ہو ئے آپ سے ملنے آگئی میں خوشگوار لہجے میں بولا باجی یہ گاڑی آپ کی ہے یا کسی عزیز کی تو باجی خوشگوار لہجے میں بولیں بھائی جان یہ میری کار ہے حالات بد ل گئے ہیں اللہ کے کرموں کی بارش ہو رہی ہے اور میں ہر سانس کے ساتھ مالک کا شکر ادا کر رہی ہوں باجی بہت خوش تھی اور میں ماضی میں غوطے لگاتا ہوا پیچھے چلا گیا

 

جب باجی اپنے خاوند اور بیٹے کے ساتھ میرے پاس آیا کرتی تھیں کھاتے پیتے امیر لوگ تھے مسئلہ یہ تھا کہ باجی کے میاں نے دس سال پہلے اپنے بہت قریبی دوست کے ساتھ مل کر گارمنٹس کی فیکٹری لگائی تھی دونوں نے خوب محنت کی باہر کے ممالک سے آرڈر آنا شروع ہو گئے کام اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ مزید فیکٹریاں لگانا پڑیں دولت اور کامیابیوں کی موسلا دھار بارش ہو رہی تھی چھوٹے گھروں سے گلبرگ کے بڑے گھروں میں آگئے بڑی گاڑیاں زندگی کی تمام آسائشیں میسر ہو تی گئیں جب کام بہت زیادہ پھیل گیا باجی کے میاں نے سوچا اب کاروبار کو الگ کیا جائے کیونکہ کاروبار پر مکمل کنٹرول میاں کے دوست ملک صاحب کا تھا اِس لیے باجی رشتہ داروں نے سمجھایا کہ آپ اندھے اعتماد کے ساتھ کام کر رہے ہیں فیکٹریوں پر کنٹرول اور قبضہ ملک صاحب کا ہے لہذا کچھ چیزیں اپنے نام بھی لگوا لیں جب باجی کے میاں نے دبے لفظوں میں اپنی خواہش کا اظہار ملک صاحب سے کیا تو ملک صاحب نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا جب ٹال مٹول کا سلسلہ دراز ہوا تو باجی کے میاں نے سنجیدگی سے کہنا شروع کر دیا جب پھر بھی بات نہ بنی تو مشترکہ دوستوں سے کہلانا شروع کر دیا جب ملک صاحب مسلسل ٹال مٹول اور تاخیری حربے استعمال کر رہے تھے تو باجی نے پریشان ہو کر وظیفے شروع کر دئیے وظیفوں کا عمل شروع ہوا تو کسی نے میرے بارے میں بتا دیا لہذا باجی اپنے خاوند کے ساتھ میرے پاس آنا شروع ہو گئیں کہ میرے میاں کا پارٹنر ہمارا حصہ نہیں دے رہا

باجی کی دو بیٹیاں اور چھوٹا بیٹا تھا باجی کو اپنی اولاد اور بیٹے کی فکر تھی کہ اگر میاں صاحب نے اپنی زندگی میں یہ تقسیم نہ کرائی تو اکلوتا بیٹا بعد میں کیسے ملک صاحب کی چالاکیوں کا مقابلہ کرے گا میاں بار بار کہتے کہ ملک میرا دوست ہے میرے ساتھ فراڈ نہیں کر سکتا لیکن باجی بضد تھیں کہ ملک صاحب کی نیت خراب ہو چکی ہے اِس لیے تو وہ حساب نہیں کر رہے مختلف بہانوں سے حساب کو ٹالتے جا رہے ہیں ملک صاحب مسلسل انکاری حالت میں تھے لہذا باجی کے میاں نے مختلف دوستوں کے پاس جاناشروع کر دیا تو ملک صاحب نے نیا پینترا یہ بدلہ کہ کاروبار کو عملی طور پر تو میں نے چلا یا ہے ساری محنت میری ہے باجی کا میاں خاموش پارٹنر تھا لہذا یہ حصے دار ہی نہیں تھوڑی بہت رقم لے یا پھر جو مہینہ مل رہا ہے اِس پر گزاراکریں یہ بات سن کر باجی اور اِن کا میاں بہت پریشان ہو ئے کہ اِن کے ساتھ تو فراڈ ہو گیا ہے باجی کے میاں کے پاس چند کا غذات ایسے تھے جو اِن کی پارٹنر شپ کو ثا بت کر تے تھے لہذا انہوں نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا جب ملک صاحب کوپتہ چلا کہ یہ لوگ عدالت جا رہے ہیں تو انسانی خطرناک منصوبہ بنا یا کرائے کے قاتلوں کو بڑی رقم دے کر باپ بیٹے کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا یا پھر جلاد صفت قاتلوں نے روڈ پر گاڑی روک کر ڈکیتی کا ڈرامہ کرتے ہوئے دونوں باپ بیٹے کو سڑک پر دن دیہاڑے سب کے سامنے قتل کر دیا تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری

 

باجی زاہدہ پر تو قیامت ہی ٹوٹ پڑی ہوش و حواس کھو بیٹھیں ملک صاحب منہ پر معصومیت ہمدردی کا نقاب چڑھانے آخری رسومات میں اس طرح شریک ہوئے جیسے دنیا میں سب سے زیادہ غم اُنہی کو ہے لیکن چند دن بعد ملک صاحب کے ذاتی خادم نے باجی زاہدہ کو خط لکھا کہ میں سامنے نہیں آسکتا آپ کے میاں اور بیٹے کو ملک صاحب نے بے دردی سے قتل کروایا ہے اب اگلا ٹارگٹ آپ ہیں اگر آپ اپنی اور بیٹیوں کی زندگی چاہتی ہیں تو فوری طور پر جو روپیہ پاس ہے لے کر کسی دوسرے شہر میں جا کر چھپ کر زندگی گزار دیں یہاں پر آپ کی زندگی کو شدید خطرہ ہے باجی کا آہوں سسکیوں ہچکیوں کے ساتھ مجھے آخری فون آیا اور یہ ساری غم ناک داستان سنائی اور کہا بھائی میں یہ شہر چھوڑ کر جا رہی ہوں زندگی میں کبھی حالات میرے حق میں ہو ئے خدا کبھی مجھ پر مہربان ہوا تو ضرور آپ سے ملوں گی میرے لیے دعا کر تے رہنا پھر کئی سال باجی سے کوئی رابطہ نہ رہا لیکن باجی پر ہونے والا ظلم جب بھی یاد آتا آنکھیں بھیگ جاتیں آج کئی سال بعد باجی خوش و خرم بڑی گاڑی میں آئیں تو بہت خوشی ہوئی ساتھ میں تجسس بھی کہ باجی کے حالات کیسے بدلے کہ باجی کو سب کچھ دوبارہ مل گیا تو باجی نے بتایا کئی سال بعد چند ماہ پہلے مجھے کسی نے بتایا کہ ملک صاحب برباد ہو گئے جس طرح ملک صاحب نے میرے خاوند اور بیٹے کو قتل کیا کسی اورپر جب ملک صاحب نے ظلم کیا اُن کے خاندان والوں کو قتل کرایا تو بچ جانے والے نے کرائے کے قاتلوں کے ساتھ ملک صاحب کے گھر پر حملہ کیا دو بیٹوں بیٹی کو قتل کیا بیوی کے ساتھ ملک صاحب کے سامنے جنسی زیادتی کی ملک صاحب کو برباد کر کے چلے گئے ملک صاحب کے ظلموں کی سزا دے گئے بیوی یہ ذلت برداشت نہ کر پائی چند دنوں میں ہی خود کشی کر لی ملک صاحب کی سلطنت برباد ہو چکی تھی ذہنی حالت خراب شدت سے میرے میاں کے ساتھ زیادتی کا پچھتاوا ہر کسی سے میرا پتہ پو چھتے کہ میں نے معافی مانگنی ہے سب کچھ میرے نام لگانا ہے پھر دن رات میرے میاں کی قبر پر جاکر ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگتے تھے جب مجھے تصدیق ہو گئی تو میں واپس آگئی ملک صاحب نے ساری جائیداد میرے نام کر دی اب وہ کسی دربار پر یا قبرستان میں ہاتھ باندھے معافی مانگتے نظر آتے ہیں لیکن ایسے ظالموں کے لیے معافی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں پھر عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔


شیئر کریں: