Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

حاجی کا تحفہ ۔ گل عدن چترال 

شیئر کریں:

حاجی کا تحفہ ۔ گل عدن چترال

حج مسلمانوں کا ایک اہم دینی فریضہ جس کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے مگر اللہ کے حکم سے کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے اس لئے وہ لوگ جنہیں حج کی سعادت نصیب ہوتی ہے وہ بڑے خوش قسمت مانے جاتے ہیں ۔ یقینا اللہ کے گھر کی زیارت، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری اور شیطان کو کنکریاں مارنا خوش قسمتی کے زمرے میں آتا ہے مگر میری سائکی کہ مطابق ہم بہ حثیت انسان کسی دوسرے کی خوش قسمتی اور بد قسمتی کا فیصلہ نہیں کرسکتے ۔حج ایک عبادت ہے اور عبادات کا معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے۔یہ صرف ہم اور ہمارا رب ہی جانتا ہے کہ ہماری عبادات میں ہماری نیت کتنی خالص ہے اور ہماری کوشش اور لگن دکھاوے سے کتنی پاک ہے اس لئے عبادت کے مقبول ہونے کا علم صرف اللہ کی پاک ذات کو ہے۔ہاں البتہ ہمارا کام کسی حاجی نمازی حافظ اور مولوی کی دین کی خاطر عزت کرنا ہے اور وہ ہم کرتے آرہے ہیں۔

ہماری محدود سوچ کے مطابق دولت عزت حسن مرتبہ اللہ کے انعامات ہے۔جبکہ غربت بیماری تنگ دستی وغیرہ اللہ کا ہم پر عذاب ہے ۔ لیکن میں اس سب سے اتفاق نہیں کرتی ۔ کیونکہ انسان کی زندگی کو، پیدائش سے لیکر موت تک آزمائش قرار دیا گیا ہے ۔ اسلئے دولت صحت عزت اللہ کی طرف سے انعام ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری آزمائش بھی ہے۔اسی طرح اولاد بھی آزمائش ہے غربت بھی آزمائش ہے۔بیماری بھی آزمائش ہے۔بلکل اسی طرح حج کا نصیب ہونا خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی آزمائش ہے مسلمان کے لئے۔آپ نے کھبی غور کیا ہے ہر سال لاکھوں لوگ حج پر جاتے ہیں ۔واپسی پر اپنے عزیز و اقارب کے لئے تحائف بھی ساتھ لاتے ہیں جو ایک رواج بن چکا ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے کیونکہ تحفہ دینا آپس میں خلوص کی علامت ہے ۔لیکن۔میں یہ سمجھتی ہوں ایک حاجی کا اپنے عزیزوں کے لئے بہترین تحفہ یہ ہے کہ جب آپ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد واپس آئیں تو آپ کا دل آپکی رشتہ داروں کے لئے بلکل پاک ہو۔بغض، کینہ ،حسد، نفرت اور بد گمانیوں سے بلکل پاک۔ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو حج یا عمرہ پے جاتے ہوئے آداب کے تحت رشتہ داروں سے ملتے ہیں معافی مانگے ہیں یوں عاجزی وانکساری کا پیکر بن کر حج پر جاتے ہیں مگر واپسی کے کچھ عرصے بعد آہستہ آہستہ اپنی پرانی زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں ۔ آپ اتفاق کرتے ہیں یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کے ہم کتنے ہی بد اخلاق متکبر حاجیوں کو جھیل رہے ہیں ۔اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو حج ،عمرہ نصیب ہونے سے پہلے ایک نارمل شریف انسان کی زندگی جی رہے تھے لیکن حج ادا کرنے کے بعد ان میں “حج نصیب ہونے ” کا غرور اتنا بڑھ جاتا ہے کے وہ فرعون کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔(اسی لئے میں کہتی ہوں حج کا نصیب ہونا آزمائش ہے) ۔حالانکہ حج کے آداب میں سب سے پہلے اپنے دوست احباب رشتہ داروں سے معافی مانگنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی راہ میں اپنی انا اور غرور کو قربان کر دیا۔غرور جس نے ابلیس کو فرشتے سے شیطان بنادیا ۔تو کیا ایک حاجی کو غرور زیب دیتا ہے؟؟

بے شک اللہ ہماری خلوص نیت اور تقوی کی بنیاد پر ہی ہمارا فیصلہ فرمائیں گے ۔تو چاہے عید پر بڑے سے بڑے جانور کی قربانی کریں یا لاکھوں روپے خرچ کرکے حج پر جائیں لیکن اگر ہمارے اندر رائی کے برابر بھی غرور ہے تو ہمارے سارے اعمال رائیگاں جائیں گے ۔ اللہ نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم لاکھوں خرچ کرکے اور ،سفر کی صعوبتیں اٹھا کر بھی روز قیامت خالی دامن رہ جائیں ۔ تو کوشش ہونی چاہئے کہ جب اللہ نے اتنا کرم کیا ہے اتنی عزت عطا کی ہے اپنے گھر کی زیارت نصیب فرماکے تو آپ بھی اس عزت کی لاج رکھ کے اپنی کدورتیں نفرتیں دھو آئیں اپنے پیاروں کے لئے نیک نیتی اور خلوص کا تحفہ لیکر آئیں جس سے آپکے رشتے قائم رہ سکیں ۔ اس تحریر کا مقصد کسی کے دین داری اور حج پر انگلی اٹھانا ہرگز نہیں ہے۔ہاں اس تحریر کا مقصد اتنا ضرور ہے کہ ہر حافظ ،حاجی اور عالم دین اپنے مقام کو پہچانیں اور جو عزت اللہ نے عطا کی ہے اسے اپنا کمال سمجھ کر اسے ضائع نہ کردیں۔
گل عدن


شیئر کریں: