Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان  ۔ ”بابا سیار کا سرزمین ریشن کو خط“  ۔  محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان  ۔ ”بابا سیار کا سرزمین ریشن کو خط“  ۔  محمد جاوید حیات

تم میرے گاٶں کے آمنے سامنے ایک ارضی جنت ہوا کرتی تھی ۔درمیان میں دریا چترال کی بے رحم موجیں ہوا کرتی تھیں ۔ہم دورسے تمہارا نظارہ کرتے۔کوٸی ڈھنگ کا پل بھی دریا پر نہ ہوتا ۔ہمارے بڑے جب تمہارے ہاں غمی خوشی میں شرکت پہ جاتے تو یا تو اس بان باندھے پل کو کراس کرتے یا دریا کی موجوں کا سامنا کرتے ۔ہم حسرت کی تصور بنے رہتے ۔رات کو ہمارے بڑے تیرا ذکر چھیڑتے ۔ریشن جنت ہے ۔فصلوں کے لحاظ سے ،پھولوں کے لحاظ سے ،باغ درختوں کے لحاظ سے، کھیت کھلیانوں کے لحاظ سے، ٹھنڈے ٹھنڈے چشموں کے لحاظ ، مست مست جوانوں اور پری پیکروں کے لحاظ سے ۔ ہمارے بڑے کہتے ۔۔ ریشن جنت ہے۔یہ کردار اور غیرت کی سر زمین ہے یہاں کے باشندےبا شعور مہذب اور با اخلاق ہیں ۔یہاں کی مٹی پر فطرت حسن بن کر اترتی ہے ۔باد صبا یہاں پر چلتی ہے یاں کی نسیم سحر شگوفوں سے اٹھکیلیاں کھیلتی ہے ۔ہر ہر چہرہ گلاب ہے لوگوں کی سانسوں میں محبت کی خوشبو اور ان کی باہوں میں داٸمی سکوں ہے۔پھر ہم بڑے ہوگۓ ۔گھوڑسواری کرنے لگے شاہسوار تک بن گۓ۔ہم دریا کی موجوں کو شکست دینے لگے ۔پھر ہم فطرت کے حسن کے سامنے ہتھیار ڈال گۓ ۔ہم نے ریشن کو واقع جنت پایا ۔ جنت کا دور اور قریب سے نظارہ کرتے ۔دل کوقرار نہ ملتا ۔راتیں جاگتے بیت جاتیں کب صبح ہوجاۓ جنت کا نظارہ ہوجاۓ ۔تمہاری مٹی کی خوشبو مشام جان معطر کرتی ۔ہم تمہارے سامنے پہاڑی پر آکر بیٹھ جاتے اور محبوب کی یاد میں شعر لکھتے ۔تمہارے جنوب مغرب میں دریا چترال بہتا ۔اس کی موجیں ساحلوں کا طواف کرتیں ساحلوں کو چومتیں ۔

درمیاں میں ایک خوبصورت سی ندی تھی جو پورے ریشن کو سیراب کرتی ۔پرندے تیرا گیت گاتے ۔پھر یوں ہوا کہ میرے محبوب کے سرخ ہونٹوں سے تیری مٹی نے رنگ پکڑی اور سنہری ہو گٸ ۔

پھر یوں ہوا کہ میرا تبادلہ عالم خاک باد سے عالم ارواح کو ہوگیا ۔میں نے تجھے بھولا نہیں اس عالم میں جب لوگ آتے تو تیرے بارے میں عجیب معلومات دیتے ۔۔کوٸی آ کر کہتا کہ تیرے سینے کو چیر کر خوبصورت پختہ چوڑا سا راستہ بنا یا گیا ہے کوٸی آکرکہتا کہ تیرے باشندوں کی مہمان نوازی مفقود ہوگٸ ہے ہوٹلیں بن گۓ ہیں اور مہمان ادھر ٹھرتے ہیں ۔کوٸی آکر کہتا کہ تیرے پولو گراونڈ میں کبھی کبھی پولو کا میچ ہوتاہے ۔کھیلاڑی جوہر کمال نہیں دیکھاتے اور نہ کوٸی تماشائيوں میں بیٹھا دیکھنےوالا تجاہل عارفانہ سے کہتا ہے ۔۔۔یہ ”اجنبی“کون ہے ؟ اور نہ اجنبی اپنا گھوڑا نہ ہونے کا افسوس کرتا ہے اور نغمہ مستانہ گنگناتا ہے ۔ مہ تن سورخن بیروا تتنے غیرت کوریسام ۔۔۔۔۔

کوٸی آ کر کہتا ہے کہ تیری مسجدیں اور جماعت خانے پختہ ہو رہےہیں لیکن ساتھ یہ جانکاہ خبر بھی دیتے ہیں کہ تیرے باشندوں کو نہ تیری کوٸی پرواہ رہی ہے نہ اپنی ۔کوٸی آ کر کہتا ہے کہ تیرے ہاں بےمثال تعلیمی ادارے بن گۓ ہیں اور تیرے بیٹے اعلی تعلیم یافتہ بن کرتیری مٹی کی پہچان بن گۓ ہیں لیکن ساتھ یہ جانکاہ خبر بھی سناتے ہیں کہ ان کو بھی تیری کوٸی پرواہ نہیں ۔کوٸی آ کر یہ بری خبر دیتا ہے کہ تیری خوبصورت ندی کے آخر میں گوروں نے بجلی گھر بناٸی اور تجھے روشنیوں سے جگمگا دیا ساتھ یہ جانکاہ خبر سناتے ہیں کہ سیلاب نے اسے تباہ و برباد کر دیا اور نہلے پہ دہلا کہ کوٸی پرسان حال نہیں ۔اور اب پانچ سال پہلے یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ دریاۓ چترال جو کبھی اپنے کناروں پہ موجود تیرے پھتروں کو چوما کرتا تھا تیری مٹی کو کاٹ کھا رہا ہے تیرے جنوب مشرقی کنارہ اور جنوبی مغربی کنارہ دونوں متاثر ہیں۔۔کھیت کھلیاں دریا برد ہورہی ہیں لہلہاتی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں تیرے باشندوں کی اپنی جمع پونجی سے بناۓ ہوۓ گھر تباہ ہورہے ہیں لیکن پرسان حال کوٸی نہیں ۔ میرا سوال تیری بد بختی پر یےاگرتو کسی زندہ ملک میں ہوتی زندہ قوموں کے ہاتھوں میں ہوتی تو اس جدید دور میں تجھے چند دنوں میں بچایا جاتا ۔دریا کی بے رحم موجوں کے سامنے ریت کی دیوار نہ کھڑی کی جاتی ۔تجھے لولی پاپ نہ کھلایا جاتا ۔

 

تیرے باشندوں کو افیم کی نیند نہ سلایا جاتا ۔۔اس جدید دور میں بیس مہینوں میں کنکریٹ کی پختہ پشتہ بن جاتی۔دریا کی موجیں اس سے سر ٹکراتیں شکست کھاتیں اور تیرےغیرت مند باشندوں کو سلوٹ کرتیں ۔تیرے باشندوں کو نیند سے بیدار کرنے کے لۓ شور محشر کی ضرورت ہوگی جو ابھی آۓ گی نہیں کیونکہ دنیا میں زندہ قومیں موجود ہیں تو جاپان میں ہوتی تو چاینا میں ہوتی تیری خوبصورتی کی قسم تو امریکہ میں ہوتی تو تیری حفاظت ہوتی تیری خاک نے میرے محبوب کے لبوں سے رنگ پکڑی تھی ۔تو دنیا میں جنت ارضی ہے ۔۔تیرے باشندے کب بیدار ہونگے ۔تیری خاک کی حفاظت کریں گے ۔تیری تباہی کے پانچ سال کے بعد بھی کوٸی ٹھس سے مس نہیں ہوتا ۔تیرے جوان تیرے بوڑھے تیرے لیڈر تیرے سیاست کار اور سیاست دان کہاں ہیں وہ خاموش تیری تباہی کا تماشا دیکھ رہے ہیں ۔حکومت کے پیسے ان کے سامنے کوٸی کھا جاتا ہے ان کو احساس نہیں ہوتا ۔۔۔تجھےبچانے کے لۓ دریا کے سامنے ریت کے پشتے بناۓ جاتے ہیں ترے باشندے ان زمہ داروں کا گریبان کیوں نہیں پکڑتے ۔ان کو کیا ہوگیا ہے وہ سارے تعلیم یافتے، وہ سارے راہنما ، وہ سارے مستنڈے وہ کس درد کی دوا ہیں ۔۔

میں یہاں بےچین ہو رہا ہوں میرےمحبوب کے لبوں کی قسم تجھے کسی کی نظر لگی ہے ۔تو ایک بار پھر چیخ کر دھاٸ دے شاید پورا چترال تجھے بچانے دوڑے ۔۔۔چترال اب بھی تقسیم نہیں ہوا چند ایک کے سوا باقیوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ارندو تا بروغل ۔۔چترالی تجھے بچانے دوڑیں گے ۔حکومت کو جھنجھوڑیں گے نماٸندوں کے

گریبان پکڑیں گے ۔۔اب بہت ہو چکا وقت آگیا ہے ۔۔
پونگان زمینہ مو دیتے ژانے مہ ہردیہ چھونے ۔۔۔۔
پونگان لاکھی ہردیا ہردیو چھومیکوت دونے ۔۔۔۔۔
۔۔تمہارا دیوانہ ۔۔۔۔۔۔۔ محمد سیار

chitraltimes reshun river erusion inhabitants moving to safe places2


شیئر کریں: