Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لکشن بی بی سے ادھوری ملاقات ۔ فتح اللہ

شیئر کریں:

لکشن بی بی سے ادھوری ملاقات ۔ فتح اللہ

شام کا وقت تھا ایک دوست نے کال پر مجھ سے کہا کہ لکشن بی بی رمبور پہنچ چکی ہے کیا یہ خبر دورست ہے؟ ، میں نے لاعلمی کا اظہا ر کیا کہ میں دوکان میں نہیں ہوں گھر آیا ہوں مجھے کوئی علم نہیں۔ اس کے بعد میں نے ایک دوست کو کال کی اور اس سے پوچھنے پر انہوں نے تصدیق کے بعد مجھے میسچ کی کہ الیکشن بی بی اپنے رہائش گاہ پہنچ چکی ہے۔ صبح ہوئی تو میڈیا سے وابسط دوستوں سے بھی بات کی کہ میں لکشن بی بی سے ان کی ماضی ،حال اور نجی زندگی کے حوالے سے انٹرویو کرنا چاہتا ہوں اس ضمن میں کوئی سوال آپ کے زہن میں ہو تو مجھے بتائے اس حساب سے میں تیاری کر لوں، ان میں سے دو دوستوں کے سوالات بھی مجھے موصول ہوگئے میں نے ہوم ورک کرنے کے بعد جب ملاقات کے لیے ان کے پاس گیا تو دیکھا کہ لکشن بی بی سے ملنے درجنوں افراد ان کے رہائش گاہ میں موجود تھے۔ باری باری ان سے باتیں کر رہے تھے ۔ ہر انکھ میں نمی تھی سب ان سے معافی مانگ رہے تھے کہ انہوں نے غلطی کی۔ کسی اور کا ساتھ دے کر ایک عظیم خاتون کو وطن بدر ہونے پر مجبور کیا۔ سارے لوگ ایسے پیش آرہے تھے جسیے وہ سب الیکشن بی بی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ہوا تھا اور لکشن بی بی تنگ ہو کر ملک چھوڑ کر چلی گئی تھی۔

جب میں ملنے کے لیے ااستقبالیہ ہال میں گیا تو دیکھا وہ اندر کچن میں ہے میں نے کافی انتطار کیا کہ لوگ نہ ہو اور میں اکیلے میں ملو ں کیونکہ پہلی مرتبہ مل رہا ہوں ایسا نہ ہو کہ مجھے اس کے سامنے کوئی شرمندگی اٹھانا نہ پڑے میرے لیے وہ بالکل انجان تھی ۔ موقع ملتے ہی میں نے سلام کی ، سلام کی دیر تھی کہ انہوں نے مجھے گلے لگار کہا کہ ماشاءاللہ آپ بڑے ہو گئے ہیں اور کہا کہ آپ کو بہت پہلے دیکھا تھا۔ پھر اس نے ہمیں کہا کہ کرسی باہر رکھے گب شب کرتے ہیں اور ناشتہ بھی تیار ہے ۔ جب کمرے سے باہر نکلے تو دیکھا کہ میرے والد صاحب بھی باہر موجود ہے لکشن بی بی نے گرم جوشی سے والد کو کہا کہ تاش خان آپ میرے والد کی طرح عظیم لیڈر ہے آپ مجھے والد کی طرح یاد آرہے تھے آپ مجھے ایسے ہی لگے جیسے میرے والد تھے۔

جب والد اور لکشن بی بی کے درمیان گلے شکوے ختم ہوگئی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ تو اب مسلم ہیں ۔عملی زندگی کا بھی آغاز کر چکے ہیں ،مبارک ہو ، ساتھ میں کھڑا ایک شخص نے کہا کہ شاید یہ قسمت ہے جو بھی کیلاش مذہب میں شوقین یا کیلاش مذہب کی ترقی میں کام کر سکتے ہیں وہ ہمیں چھوڑ جاتے ہیں ، اس پر مخترمہ نے عرض کیا کہ انسان چاہتا ہے کہ اس سے زند گی میں بہت کچھ کرنا ہے ، مگر ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کے لیے سوچنے اور فیصلہ کرنے میں حدود کا تعین کیا جاتا ہے اس سے ہم لوگ ناامیدی میں مبتلا ہو کر آخری فیصلہ کر کے اس معاشرے کی حدود کو پار کرتے ہوئے پورے کمیونٹی کو اپنے فیصلے اور سوچ سے الگ رکھتے ہیں ۔ باتیں ہو رہی تھی والد صاحب بلکل خا موشی سے یہ سب سن رہا تھا ۔

پھر میں موبائیل سے تصاویر بنا رہا تھا تو لکشن بی بی نے کہا آپ گھر کے آفراد میں شامل ہے بیٹا فوٹو گرافی تو کر لو مگر کسی قسم کے تصاویر یا وڈیوز کہیں پہ اپلوڈ نہیں کرنا میرے جانے کے بعد اپلوڈ کر سکتے ہو کیونکہ زاتی طور پر ٹھیک نہیں سمجھتی ہوں میری بھی اپنی ایک پرویسی ہے۔ یقین مانیے کہ اس قوم نے ایک بیٹی کو اتنی تکلیف پہنچائی ہے کہ اپنے ہی گھر میں خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے ۔ چاہتی ہے کہ کسی کو آنے کی خبر نہ ہو بس اپنوں سے ملاقات کرنے کے بعد یہاں سے فرار ہو جائے ، ہم وہ جاہل اور احسان فرا موش قوم ہیں جب کوئی ہمیں فائدہ پہنچا رہا ہو تو ہم اس کی زاتی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں ۔ خیر آگے باتیں بہت ہیں کرتے رہنگے ۔

جب مجھے لگا کہ لکشن بی بی مصروف ہیں ملنے والوں کی لمبی قطار ہے تو میں نے اپنے ملاقات کی خاص مقصد سے آگاہ کیا کہ آپ سے ملاقات کے لئے لوگ آ رہے ہیں مجھے اجازت دے میں جا رہا ہوں میں تو آپ سے کچھ پوچھنے آیا تھا آپکی نجی زندگی سے کچھ ہم بھی راز جان سکیں، خیر اب ممکن نہیں، پھر ملاقات ہوگی ۔

جب میں نے کہا کہ بڑی مہربانی اپ نے اپنی قیمتی وقت سے مجھے وقت دی ، اب مجھے جانا چاہیے ، اس نے کہا کہ میں آپکو انٹریوں دونگی مگر پہلے آپ ایک بیٹے کی طرح مجھ سے بات سنو میں نے اس قوم کو کیا دیا اور اس قوم نے مجھے کیا دی ہے ۔ لوگوں نے میری عزت خراب کی مجھ پر الزمات کی بر سات کی ، جبکہ میں نے اس قوم کو ایک پہچان دی ایک مقام دیا میری کوشش سے کئی ادروں میں کیلاش نوجونوں کو ملازمات کا موقع فراہم ہوا ۔ جب وہ باتیں کر رہی تھی تو انکھو ں میں نمی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی کسی کی اچانک موت کی کہانی سنا رہا ہو۔

افسوس سدا افسوس اس کی ولادت غم
وطن جس کی چمن ہو اور چمن بےزار ہو جائے

جب وہ کیلاش وادی میں ان کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی سے مجھے آگاہ کر رہی تھی تو اچانک ان کی امی بھی پہنچی اور موقع سے فائدہ اٹھا کر بیٹی کو اور وہاں موجود لوگوں کو اپنے اپر ہونے والی کہانی بتانا شروع کیا تو لکشن بی بی نے اپنی ماں کو مزید باتیں کرنے سے روک دی کیونکہ وہ ماضی کی تلخیاں بیان کر رہی تھی الیکشن کو اس بات کا احساس ہوا کہ سامنے کھڑے لوگ سارے میرے خلاف تحریک کا حصہ رہے ہیں اب امی کی وجہ سے ان کے جذبات تو ٹھیس نہ پہنچے، الیکشن بی بی کا یہ رویہ بتا رہی تھی کہ وہ ماضی میں جانا نہیں چاہتی ہیں بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اب اس کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو ، لکشن بی بی نے مجھ سے کہا کہ بیٹا میں نے پہلے بھی ایسا ہی پر امن رہنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے کہیں پر بھی اختیارت کا غلط اور بے جا استعمال نہیں کی ہے۔ جب لوگ میرے خلاف کورٹ میں کیس لڑ رہے تھے اس وقت میں انہیں اپنے ہی گاڑی میں کورٹ کو لے جاتی تھی میں چاہتی تھی کہ انہیں کوئی گاڑی لینے میں مشکل نہ ہو کیوں کہ میں بے قصور تھی مجھے اپنے علاقے کی خدمت عزیز تھی اس لیے جب میں یہاں خواتین کی مخصوص آیام میں اور زچگی کے دورن خاص مقام بشالینی میں رہنے والے ماؤں اور بہنوں کے لیے جدید بشالینی تعمیر کر رہی تھی اس وقت مقامی لوگوں نے مجھے اتنا مجبور کیا کہ میں اس جنت کو چھوڑ کر سات سمندر پار جاکر اپنے ماں باپ اور عزواقارب سے دور زندگی گزرنے پر مجبور ہوئی ، میں مرتے وقت اپنے والد کی دیدار تک نہیں کر سکی ۔ مجھے ایسی ایسی پریشانیوں سے دور چار کیا گیا کہ اب میں وہ سوچ کر انتہائی مایوس ہو جاتی ہوں ۔ جب میں اس ملک سے جانے کا اردہ کیا تو سوچا کہ میں اگر کیلاش کلچر کو استعمال کر کے کہیں پے پناہ حاصل کرتی ہوں تو لوگ پھر میرے خلاف ہو جائیں گے اس لیے میں اپنے بل بوتے پر یہاں سے چلی گئی اب میری زندگی دیار غیر میں کسی سفیر سے کم نہیں بلکہ ان سے بہتر زندگی وہاں گزر رہی ہوں۔ افسوس تو میری یہ ہی ہے کہ اگر میں ادھر ہوتی تو کیلاش وادیاں آج بہت الگ ہوتے یہاں کے لوگ ترقی یافتہ کہلاتے مگر بد قسمتی سے مجھے بہت تنگ کر کے اس ملک کو چھوڑنے پر مجبور کیاگیا اب سب لوگ جانتے ہیں کہ ترقی کا آغاز میری وجہ سے ہوئی تھی۔

یہاں آکر میرے ہاتھ روک گئی قلم نے ساتھ چھوڑ دیا میرے آنکھوں میں نمی کا نہ روکنے والا طوفان تھا اور دل میں غموں کا انبار لے کر واپس لوٹنا پڑا ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
63017