Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مستوچ میں ایس ار اسی پی کا بجلی گھر  : ایک  تنقیدی جایزہ ۔ ڈاکٹر اسماعیل ولی

Posted on
شیئر کریں:

ایڈیٹریا ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں!

مستوچ میں ایس ار اسی پی کا بجلی گھر  : ایک  تنقیدی جایزہ ۔ ڈاکٹر اسماعیل ولی

ڈونیشن کا اگر عربی، فارسی یا اردو میں ترجمہ کی جاے تو عطیہ ،صدقہ یا خیرات ہے چونکہ لفظ  ڈونیشن انگریزی سے ماخوذ ہے اسلیے ہمارے معاشرے میں یہ اصطلاح غیر سرکاری تنظیمات کے تناظر  میں ا ستعمال ہوتا ہے اور ہمارے ذہنوں میں بڑی بڑی گاڑیاں، بڑے بڑے دفاتر ، قیمتی سازو سامان کے علاوہ اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام  سے ادھار لیے ہوے با رعب خطابات مثلا سی ای او، ار پی ایم ، جنرل منیجر وغیرہ اگر ان ” پردوں” کو  ہٹا کر دیکھا جاے تو یہ سارے لوگ یوروپی خیرات پر پل رہے ہیں بڑے بڑے گھروں کے مالک ہیں ان میں بعض اتنے مغرور ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ خیرات پہ نہیں پل رہےبلکہ نوبل پرایز  لیکر  اس کا کچھ حصہ عوام کو دے رہے ہیں-

ایس ار ایس پی بھی ان غیر سرکاری تنظیموں  میں ایک سے ہے جو یوروپ کے مخیر تنظیمات سے خیرات لا کر یہاں دہی تنظیمات کے ذریعے عوامی بہبود کے کام کرتی ہے ان کاموں میں چھوٹے پن بجلی گھروں کی تعمیر  بھی شامل ہے اج سے چھ ساتھ سال پہلے مستوچ میں موجود مردانہ و زنانہ تنظیمات  کا ایک کلسٹر بنا کر اون شوت میں مرحوم  حاجی زار قباد مستوچ کی زمیں پر ایک بڑا پن بجلی گھر بنانے کا عمل شروع ہوا اس کلسٹر میں چنار، سرغوز ، توق، ڈرا ڑوٹ اور لکھپ کی تنظیمات شامل تھیں شیندہ معلومات کے مطابق حاجی زارقباد کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت مفت بجلی کے علاوہ فایدے کا دس فیصد بھی ان کو دینا تھا۔جبکہ اسی مقام پر کمیونٹی کی ایک چھوٹا بجلی گھر پہلے سے موجود تھا اور لوگ اُسے سے استعفادہ کررہے تھے۔

پن بجلی گھروں کے سلسلسے میں جو معاہدہ   پیڈو کے ساتھ ہوا تھا اس کا کوی  دستاویزی ثبوت بھی عوام کو فراہم نہیں کیا گیا  جبکہ ہونا چاہیے تھا کہ پبلک پرایویٹ حصہ داری کے تحت جو معاہدہ عمل میں ایاتھا اس کی نقل بھی عوام کو فراہم کی جاتی- بجلی گھر کی تعمیر کا کام ٹھیکہ داری نظام کے تحت مکمل ہوا ہونا یہ  چاہیے تھا کہ مستوچ کے پانچ گاوں میں پہلے کھمبے لگاے جاتے پھر میٹروں کا انتظام ہوتا مشترکہ      بنک کھاتہ کھولا جاتا  ہر مہینے کلسٹر  کے نمایندے کی موجود گی میں ماہانہ اڈٹ ہوتا –بچت سے عوام کو مطلع رکھا جاتا یعنی پبلک پرایویٹ پارٹنر شپ کے معاہدے کے تحت ایک موثر نظام وجود میں اتا تاکہ پایدار  ترقی کا راستہ ہموار ہوسکے

ہوتے ہوتے بجلی گھر تیار ہو گیا اور گاوں کے مخصوص لوگوں کے علاوہ ان افراد کو بھی بجلی مہیا کی گیی جن کو بجلی کی اشد ضرورت تھی ا ور    ان کو میٹر لگاکر ماہانہ بل وصول کیے جانے لگا

غالبا تین چار سال پہلے کی بات ہے میں گرما کی چھٹیاں  گزارنے گھر پر تھا دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ مذکورہ بجلی گھر  کے ٹینک میں ریت بھر گیا تھا  اسلیے بجلی گھر کو بن کیا گیا تھا  حالانکہ میرے گھر کیلیے کھمبا لایا گیا تھا نہ میٹر یعنی بجلی نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے اس دوران معلوم ہوا کہ چترال سکاوٹس سے مدد کی اپیل کی گیی اور بالٹیوں ٰ  کے ذریعے ریت ہٹا رہے ہیں پھر معلوم ہوا کہ یہ کام اسلیے ناکام ہوا کہ اندھی ریت کو واپس ٹینک میں  پھینک تھی کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ ہر طرف خاموشی ہے اور ٹینک میں ریت بھرا پڑا تھا کسی کو ہمت نہ ہوی کہ کسی طریقے سے ریت کو نکالا جاے  تاکہ بجلی گھر چالو ہو اور لوگ بجلی سے استفادہ حاسل کرسکیں

 

اس دوران میں چند  دوستوں کو لیکر جو پہلے بھی بطور رضا کار   راستہ بناتے وقت میرے ساتھ کام کیا تھا  ٹینک کو دیکھنے گیا وہاں میری ملاقات کچھ ٹکنکل لوگوں سے ہویی اور معلوم ہوا کہ ٹینک میں نکاسی کے سوراخ کو  پورانے کپڑوں کے ٹکڑۓ ٹھونس ٹھوس کر بند گیا گیا تھا  واپس اکر میں نے کچھ رضاکاروں سے مشورہ کیا اور ان کو کام کرنے پر امادہ کیا- مزے کی بات یہ تھی کہ چار فٹ کنکریٹ کے دیوار کو توڑ کر “کپڑوں” کی جگہ تک پہنچنا تھا بحر حال ناچیز کی نگرانی میں کام شروع ہوا اور کام انتہای مشکل تھا کیونکہ بڈیر، جبل اور کچ گیر کا کام تھا لیکن جوانوں نے ہمت نہیں ہاری تین چار دن بعد سرغوز والے اپنی ڈرل مشین لیکر پہنچے مختصر ا   بارہ دن مسلسل کام کرنے کے بعد  ” کپڑوں”  کی جگہ تک پہنچ گیی “جن میں قمیض، شلوار، اور کوٹ” شامل تھے ” ایک ایک کرکے نکالا گیا جس کی ویڈیو اپ بھی میرے پاس محفوظ ہے تاکہ انجینیروں کا یہ انوکھا کارنامہ اگر موقع مل جاے کسی ڈونر کو دیکھا سکوں اور اس کو بتا سکوں کہ جناب اپ لوگ جو خٰیرات دیتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگوں کی حالت بدل جاے اور تمہارے منتظمیں کیا کھیل کھیلتے ہیں مختصر  یہ دشوار کام رضاکاروں نے کیا اور نکاسی کے راستے کو کھول  دیا اور جمع شدہ ریت اہستہ اہستہ اس راستے بہنے لگے اور ٹینک کچھ دنوں بعد ریت سے خالی ہوگیا اور بجلی گھر چالو ہوگیا ایس ار ایس پی والے اتنے بے حس اور بے شعور ہیں کہ رضاکاروں کو “شاباشی” کا کو یی سند بھی نہیں دیا حالانکہ اس پہ کیا خرچہ اتا ہے حالانکہ انہوں نے یہاں تک وعدہ کیا تھا کہ ان کو معاوضہ بھی دینگے

بہرحال جو ہوا سو ہوا – بعد میں ایس ار ایس پی  کام کرنے والوں یعنی بھیدیوں  سے معلوم ہوا کہ ان کے پاس صوبایی سظح پر سینکڑوں بجلی گھروں کی نگرانی کیلیے کوی برقی انجنیر ہی نہیں کسی سول انجینیر سے کام لیتے ہیں ان کا دفتر سوات میں کہیں ہے اور چھوٹی بجلی گھروں کو چلانے کیلیے ڈیلومہ والوں کو کم تنخواہ پر ملازم رکھا جاتا ہے

ابھی تک جمع شدہ اعداو شمار کے مطابق ایس ار یس  نے جتنے بجلی گھر بناے ہیں  بعض جگوں میں ایس ار ایس پی کے عملوں کو ہٹا کر عوام نے بجلی گھروں کو اپنی تحویل میں لے لی ہے اور مستوچ میں بھی یہ بات گردش کررہی ہے کہ ایس ار ایس والوں کو ایک قرار داد بھیجا گیا ہے کہ مشترکہ کھاتہ   کھولے بغیر لوگ بل نہیں دینگے میں لوگوں کے اس اقدام کی بھر پور حمایت کرتا ہوں

جہاں تک کھاتے اور بچت کی بات ہے مستند ذرایع سے یہ بات مجھ تک پہنچ چکی ہے کہ بلوں کی مد میں  ماہانہ جو رقم جمع ہوتی ہے وہ بڑے صاحب کے اکاونٹ میں جمع ہوتی ہے  اور یہاں کا  اکاونٹ خالی ہے کہاں یہ جاتا ہے کہ بڑے صاحب اپنی صوابدید کے مطابق یہ رقم خرچ کرتا ہے اور خیرات دینے والوں کو مطمن کرنے کیلیے کچھ طلبا کو وظیفہ دیکر ریکارڈ ان کو دیکھاتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہم خود یہ کام نہیں کرسکتے جب کہ مارکٹ میں سینکڑوں ایم بی اے اور بی بی اے بے روزگار پھر رہے ہیں

یہ بات مجھے عجیب لگتی ہے کہ ایک ادارے کے سر براہ  اپنے نام پر اکاونٹ کھول کر بلوں کی مد میں وصول شدہ رقم کو جمع کرے اور اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرے یہ صوابدیدی اختیارات اگر خیرات دینے والوں نے دی ہے اس کا ثبوت عوام کو مہیا کی جاے

میں نے جو معلومات اکٹھی کی ہیں ان کے مطابق ایس ار ایس پی اور متعلقہ دہی تنظیم کے نمایندے مل کر پانچ سال تک منصوبے کو چلانے کے بعد عوام کو حوالہ کریں گے اب ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ یہ معاہدہ ان منصوبوں کیلیے ہے  جن کی پیداواری صلاحیٰت  دو سو کلو واٹ ہو اس کے لیے بھی دستاویزی ثبوت ہونا ضروری ہے کہ واقع خٰیرات دینے والوں نے معاہدے میں ایسا کوی شق شامل کیا ہے یا نہیں

میں ایک وشل ورکر کی حیثیت سے پہلے عوام کو  سمجھانے کی کوشش کرونگا کہ ایس ا را  یس  کا   پیڈو کے ساتھ کیے گیے معاہدے کی کاپی حاصلی کی جاے   اس کے بات اگے کا   لایحہ  عمل طے کی جاے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
62938