Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ۔ پروفیسرعبدالشکورشاہ

Posted on
شیئر کریں:

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ۔ پروفیسرعبدالشکورشاہ

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے،سانحہ دواریاں پالڑی قتل کی ایف آئی آربائیس دن بعد حکام بالا کے کہنے پر پانچھ نامزد ملزمان کے خلاف درج تو ہو گئی مگر اس سانحے کے بہت سے کرداروں کو پولیس نے بریت کی چٹ تھما دی ہے۔ اس قانونی چکر کی بنیادی وجہ محکمہ پولیس اور مقامی دیہاڑی باز جرگہ داروں، پولیس کے ٹاوٹوں اور بروکروں کی ملی بھگت ہے۔ یہ دونوں ملکر غریب آدمی کا خون پیتے چلے آرہے ہیں۔آئین پاکستان اور بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی قسم کا جرگہ یا پنجائیت جرم ہے مگر محکمہ پولیس نیلم 22دن تک متاثرہ خاندان کو بار باران بروکروں، دیہاڑی بازوں اور ٹاوٹوں کے سپرد کرتی رہی اور کہتی رہی جرگہ کرو اور معاملہ رفعہ دفعہ کرو۔ وادی نیلم میں قتل غارت، منشیات فروشی، سمگلنگ، ڈکیتی،راہزنی، ریپ، بدامنی، اغواء اور دیگر سنگین جرائم میں تسلسل کے ساتھ اضافہ اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ ایس پی، ڈی ایس پی اور ڈی سی نیلم ضلع پر اپنی گرفت مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سالوں کے مقابلے میں اس سال جرائم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایس پی اور ڈی ایس پی کی تھانوں پر گرفت بلکل نہیں ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایس پی درخواست مارک کر کے دیتا ہے اور ایس ایچ او اسے ردی کی ٹوکر ی میں ڈال دیتا ہے۔

 

اگر ہم نے ایف آئی آردرج کروانے آئی جی تک ہی پہنچنا ہے تو پھر ایس پی،ڈی ایس پی اور ڈی سی صاحب کو گھر بھیج دیا جائے یہ عوامی ٹیکسوں سے کس بات کی تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔ تاخیری حربوں کی وجوہات دوہی ہو سکتی ہیں یا تو جیبیں گرم ہو چکی ہوتی یا قانون کے محافظ ہی مجرمین کی پشت پناہی کر رہے ہوتے۔ عجب بات یہ بھی ہے دواریاں اور سرگن دونوں کیسوں میں مقامی پولیس کی اپنی کارکردگی صفر ہے۔ اتنی نااہل پولیس کہانیوں میں بھی نہیں ملتی جتنی نیلم کی مقدر میں لکھی گئی ہے۔ 22دن تک دیہاڑی باز جرگہ دار اور ٹاوٹ پورے محکمے کو اپنی انگلیوں پر نچاتے رہے اور پھر پولیس کو ورغلانے کے لیے مقتولہ کی پنجاب میں موجودگی کی بوگس اطلاع دی۔ غریب خاندان سے خرچے کے نام پر 30000لیکر پولیس پنجاب روانہ ہوئی جبکہ یہ کام پولیس کا ہے اس نے سرکاری خرچے پر کسی دوسرے علاقے یا تھانے کے ملزمان کو پکڑنے کے لیے جانا ہو تا مگر یہاں تو ہمیشہ کی طرح الٹی گنگا بہتی ہے۔ متاثرہ فیملی نے پولیس اور دیہاڑی بازوں، برکروں اور ٹاوٹوں کے اخراجات پورے کرنے اور رشوت دینے کے لیے 2لاکھ روپے قرض لیا۔ مقامی بروکر حسین گارڈ، خورشید عالم، سرکاری ملازم وکیل،حاجی یاسین اور دیگربااثرافراد کی دھمکیاں اور معاملہ دبانے کے لیے لاکھوں روپے کی پیشکش محکمہ پولیس کی اشیر باد کے بغیر ناممکن ہے۔ایس پی،ڈی ایس پی اورڈی سی کاکام ضلع میں امن امان قائم کرنا اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے نہ کہ غریب متاثرین کو مقامی بروکروں، ٹاوٹوں اور دیہاڑی بازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ نا ہے۔ سابقہ ایس ایچ اور تھانہ لوات کی معطلی کے بعد بھی انتظامیہ متاثرہ فیملی کو حیلے بہانوں سے بہلاتے ہوئے کیس کو دبانے کی کوشش کرتی رہی۔ لڑکی کا موبائل سسرال سے لیکر 2دن تک خورشید عالم نے اپنے پاس رکھا اور ڈیٹا ڈیلیٹ کیا پھر پولیس کو دے دیا۔ مگر مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ جھوٹ پہ جھوٹ بول کر متاثرہ فیملی کو ہار ماننے پر مجبور کیا جار ہا ہے۔

 

ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں ڈیٹا ڈیلیٹ ہو ہی نہیں سکتا چاہیے آپ موبائل جلا دیں اس کاڈیٹا متعلقہ نیٹ ورک والی کمپنی کے پاس موجود ہوتا ہر چیز موجود ہوتی جسے نکلواکر تفتیش کی جاتی۔ایسی ہی پھرتی نیلم پولیس نے مقتولہ کی لاش ملنے پر شناخت کرتے وقت دکھائی۔ سسرال نے پہچاننے سے انکار کر دیا یہ کیسے ممکن ہے ایک فرد 11سال آپ کے ساتھ رہے اور آپ اس کی شناخت نہ کر سکیں۔ والدہ کی شناخت کے باوجود پولیس نے مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے اسے لاوارث قرار دینے کی کوشش کی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی آچکی ہے مگر ایف آئی آر میں پھر بھی قانونی خامیاں رکھی گئی ہیں۔پولیس کو ورغلانے، جرگہ کے نام پر قتل کو دبانے، متاثرین کو دھمکانے، پنجاب میں مقتولہ کی موجودگی کی اطلاع دینے اور جرگے پہ جرگہ کرنے اور کروانے والوں کے علاوہ دیگر کرداروں کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ پولیس کے اپنے اہلکار بھی اس کیس میں ملوث پائے جاتے ہیں انہیں بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے۔ نیلم کے دونوں حلقوں کے سیاست دانوں سوائے پیر مظہر سعید شاہ صاحب کے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور انہوں نے سانحہ سرگن اور دواریاں پر حلقے میں جانا تک گوارہ نہیں کیا۔ میاں وحید صاحب الیکشن سے پہلے ووٹوں کے لیے متاثرہ فیملی کے سب افراد کو مالے ڈال کے تصاویر بنوا کر ان کے گھر پر اپنے جھنڈے لگوا کر آئے تھے مگر مشکل وقت میں مظفرآباد، اسلام آباد اور اب کراچی کے دوروں پر ہیں۔ شاہ غلام قادر جو متاثرہ فیملی کے وارڈ سے لگاتار جیتتے آئے ہیں انہوں نے سیاسی رنجش کی بنیاد پر اس ظلم کے خلاف کوئی اقدام کرنا گوارہ نہیں کیا بلکہ محلاتی سازشوں میں محو ہیں۔ حاجی گل خاندان، دواریاں کی میاں فیملی اور دیگر چھوٹے موٹے سیاسی افراد نے متاثرہ فیملی کو پی پی کو ووٹ دینے کا بدلہ لیتے ہوئے چپ سادھ لی۔

 

جماعت اسلامی نے بھی الیکشن سے پہلے متاثرہ فیملی کے رشتہ داروں کو مالے ڈالے مگر مشکل کی گھڑی میں دواریاں میں سیاسی جلسہ کیا مگر متاثرین کے لیے آواز اٹھاتے زبان کٹنے لگی۔ یہی حال نام نہاد ختم نبوت کے علمبرداروں تحریک لبیک کا ہے جو نیلم سے ووٹ لیکر گم ہیں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے وقت موت کا فرشتہ نظر آنے لگتاہے۔ متاثرہ فیملی انتہائی غریب ہے لحاظہ ریاست کو اس کیس میں فریق بننا چاہیے اور یہ مقدمہ ریاست اپنی مدعیت میں چلائے تاکہ بااثر افراد ایف آئی آر کے بعد متاثرہ فیملی کو کسی سمجھوتے پر مجبور نہ کر پائیں۔ نیلم بار سے بھی گزارش ہے وہ اس کیس کو مثال بناتے ہوئے فری قانونی معاونت فراہم کرے،صحافی برادری سے بھی ظالم چہروں کو بے نقاب کرے اور ایسے کرداروں کو سامنے لائے جو انصاف کی راہ میں مختلف طریقوں سے روڑے اٹکاتے ہیں۔ محکمہ پولیس آئی جی کمپلین سیل کو مزید فحال بنائے اور اس تک عام آدمی کی رسائی کو ممکن اور سہل بنائے۔ محکمہ پولیس کی پھرتیوں کی تو کوئی نظیر نہیں ملتی۔ڈی ایس پی آفس آٹھمقام سے آئی جی کمپلین سیل میں شکایت پر فون کر کے لاہور اور کراچی میں شکایت کنندگان کو دھماکہ جاتا ہے اور انہیں تفتیش کے لیے حاضرہونے کا کہا جاتا ہے حالانکہ شکایت موصول ہونے پر یہ صرف تصدیق کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

 

چرس اورشراب جو دونوں کی ضرورت ہے وہ 2گھنٹے میں پکڑ لیتے مجرم تو پکڑے نہیں جاتے رشوت لینے کے لیے لاہور کراچی فون ملاتے دیر نہیں لگاتے اور یہ سمجھتے کسی چھوٹی موٹی فیکٹری میں کام کرنے والے کسی لڑکے نے شکایت کی ہو گی اس کو دھمکائیں گے، اس کے رشتہ داروں کو بلائیں گے پیسے کھائیں گے۔ ایس پی اور ڈی سی کا یہ کام ہی نہیں بنتا کہ وہ متاثرہ فیملی کے افراد سے کہیں کے آپ میڈیا اور سوشل ایکٹیوسٹس کو روکیں وہ اس کیس کو ہائی لائیٹ نہ کریں۔ حضور 22دن میں آپ نے کونسا تیر مارا ہے وہ بتا دیں؟اگر کام نہیں آتا تو استعفی دیجئیے۔ریاست متاثرہ فیملی کو عدالتی تحفظ فراہم کرے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ ایف آئی آرمیں نامزد ملزم وکیل عدالتوں میں ملازم ہے اس کیس کا فیصلہ ہونے تک اسے نوکری سے برخاست کیا جائے تاکہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال نہ کر سکے۔ اس کیس کے معاملے میں ایک جج صاحب بھی پھرتیاں دکھاتے رہے تو جج صاحب آپ کا کام مجرموں کو لٹکانا ہے بچانا نہیں بعد میں یہ نہ کہنا توہین عدالت ہو گئی اپنا قبلہ درست کر لیں ہم دیوانے ہیں آپ تیر آزمانا ہم دل آزمائیں گے۔ والدہ کی لاش مل چکی مگر اس کا 18ماہ کا معصوم بچہ ابھی تک لاپتہ ہے پولیس اس پر خصوصی توجہ دے اور بچے کے بارے میں پہلے کی طرح کڑاہیاں کھانے پنجاب پہنچنے کے بجائے حقائق تک پہنچے۔سرگن سانحے پر بھی پولیس اپنی روائیتی لیت و لعل سے باز آئے اور اس کیس کو منتقی انجام تک پہنچائے۔ سوشل میڈیا، سول سوسائٹی، طلبہ تنظیمیں، انصاف پسند حق گو سیاسی کارکنان، مقامی افراد، وکلاء اور صحافی برادری نیلم میں خون کی اس ہولی کو روکنے اور مظلومین کو شفاف انصاف کی فراہمی میں اپنا بھر پور کردار ادا کری


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
62887