Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

 اقتصادی عدم استحکام سے دفاعی سلامتی کو لاحق خطرات ؟- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

Posted on
شیئر کریں:


 اقتصادی عدم استحکام  سے دفاعی سلامتی کو لاحق خطرات ؟- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

دفاعی سلامتی کا دار و مدار مضبوط معیشت سے بھی جڑا ہوا ہے اور مضبوط معاشی پالیسی کو برقرار رکھنے کے لئے آبادی میں توازن کا ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت معاشی دشواریوں کا سامنا کررہا ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کامقروض در مقروض ہوتا جارہا ہے جس سے براہ راست قومی سلامتی کی پالیسیوں پر بیرونی مداخلت کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں دیگر چیلنجوں کے علاوہ سب سے بڑا اہم مسئلہ آبادی کا بڑھتا دباؤ بھی سمجھا جاتا ہے۔ بڑھتی آبادی کے لئے تعلیم، صحت، ہاؤسنگ، پولیس اور دیگر انفرا اسٹرکچر کا مہیا کرنا ضروری ہے۔ بڑھتی آبادی کے قریباََ60فیصد حصے کو مناسب خوراک نہ ملنے کا سامنا ہے۔قریباََ50  فیصد خواتین  غذائی قلت کا شکار ہے۔ عدم مساوات، کم ذرائع آمدنی اور بے روزگاری  کے خاتمے کے لئے قومی سلامتی میں ملکی ترقی، سماجی اور سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔  دفاعی سلامتی کا اہم جز و امن کا مستحکم ہونا ہے، کسی بھی ہدف کو پانے کے لئے امن پالیسیوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسے اسٹریجک مقام پر ہے، جہاں امن و امان کو پائدار بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مستحکم ہونا اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کے لئے اقتصادی طور مضبوط ہونا ضروری ہے، کیونکہ اقتصادی استحکام نہ ہونے سے دفاعی سلامتی کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں۔  نائن الیون کے بعد پاکستان جس طرح عالمی قوتوں کی پراکسی وار کا نشانہ بنااور دہشت گردی کی آگ سے وطن عزیز کا ہر حصہ بُری طرح متاثر ہونے لگا، اس سے سیکورٹی چیلنجز بڑھتے چلے گئے۔ ریاست کے لئے جہاں بیرونی خطرات ایک بڑا چیلنج رکھتے ہیں تو عام شہری کے جان و مال کے تحفظ، سماجی اور اقتصادی ماحول کی آبیاری کے لئے مربوط حکمت عملی کو اپنانا ملکی سلامتی کے عظیم مفاد کے لئے  ناگزیر بن جاتا ہے۔

قانون کی حکمرانی ہی پائدار ترقی اور امن کو فروغ دیتی ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں لاقانونیت اور عدم تحفظ ہو، حکمرانی کی بالادستی کا قیام دشوار ہوجاتا ہے۔ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ریاستی رٹ جس طرح ضروری ہے اسی طرح شہری حقوق کا تحفظ بھی ریاست کے فرائض کے اہم زمرے میں آتا ہے۔ حقوق اور فرائض کی ادائیگی سماجی انصاف کے لئے بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب کئے جانا ہی ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ عدم مساوات، استحصال اور تنازعات کا بڑھنا دفاعی سلامتی کے تقاضوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ دفاعی سلامتی کے ضمن میں سیکورٹی اداروں کو دو محاذوں پر کام کرنا پڑرہاہے، تاہم شدت پسندی اور پر تشدد انتہا پسندی کے خلاف سیکورٹی اداروں کے اولین ہدف ہی اصل چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں۔  دہشت گردی اور انتہا پسندی نے مملکت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کے مضر اثرات نے معیشت کو کمزور کرنے کے لئے اپنے شکنجے میں جکڑا، امن و سلامتی کے لئے ریاست نے مذاکرات کی راہ بھی اپنائی، سابق حکومتوں سے لے کر موجودہ ریاست تک، امن کو ایک اور موقع دینے کے اصولی موقف پر قائم بھی رہا گیا، لیکن من چاہے شرائط پر اجارہ داری کرنے خواہاں شدت پسند گروپوں کے مطالبات تسلیم کرنا ملکی سلامتی کے لئے مزید خطرناک ہوسکتا ہے۔

دفاعی پالیسی کے لئے مضبوط حکمت عملی وقت کی ضرورت رہی ہے۔ بالخصوص ایک ایسے ملک کے لئے جو چار دہائیوں سے پڑوسی ممالک میں انارکی و انتشار کی وجہ سے بری طرح متاثر رہا اور مزید ہورہا ہے۔ سیکورٹی بحران کو حل کرنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ قلیل المدت پالیسیاں اختیار کی گئی، تاہم پالیسی ساز کامل آگاہ تھے کہ ملکی معیشت کسی براہ راست جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کسی عالمی قوت کے خلاف ان حالات میں کھڑے ہوجائیں کہ سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہو۔ ملک کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی میں اصلاح کا عمل بھی جاری رہا اور بتدریج عالمی قوتوں کو باور کرانے میں کامیابی ملی کہ پاکستان کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے غیر متوازن  اور جانب دارنہ رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ خطے میں امن اور ترقی کے پائدار قیام کے لئے عالمی قوتوں کو ’ڈومور‘ کی پالیسی کو ختم کرنے سے ہی،عالمی قوتوں کے فروعی مفادات کو بھی تحفظ مل سکتا ہے۔

مستقبل میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سیکورٹی فورسز کو مضبوط کرنے کی مزید ضرورت ہے۔ عالمی قوتوں کی پالیسیاں ریاست سے ایسے مطالبات بھی کرتی چلی آرہی ہیں جس سے خارجہ پالیسی برا ہ راست متاثر ہوتی ہے۔ تاہم دفاعی اداروں اور حکومت کا مثبت بیانیہ ان توقعات کو فروغ دیتا ہے کہ جب تک پاکستان پر جنگ مسلط نہیں کی جاتی،ریاست پہل نہیں کرے گی، مملکت دفاع کے لئے ہر دم تیار رہے گی تاہم اقتصادی عدم استحکام سے اس وقت جن دشواریوں اور مشکلات کا سامناہے اس سے دفاعی ضروریات کو پورا کرنے میں دقت بھی ممکنات میں شامل ہوسکتی ہے۔ بھارت اپنی انتہا پسندی کے نظریہ کے تحت جنگی اور جارح پسند اقدامات رکھتا ہے۔ گو کہ افغانستان میں این ڈی ایس اور را کو شکست ہوچکی ہے لیکن اب بھی ان کے سہولت کار کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو تلاش کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سیکورٹی اداروں کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ کسی قسم کی انارکی یا انتشار، ریاست کے لئے پریشان کن امر اس صورت میں ہوتا ہے کہ ملک کی سرحدوں پر ایسے عناصر موجود ہوں جو کسی بھی کمزور لمحے کا فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے تو دوسری جانب سافٹ ٹارگٹ کو شدت پسندوں کی مذموم  کاروائیوں سے روکنا بھی اہمیت رکھتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام کسی بھی حکومت کی توجہ طویل المدت پالیسیوں اور سٹریجک پلان پر عمل درآمد کے لئے مشکل امر بن جاتا ہے۔ سیاسی فضا میں استحکام ہی اقتصادی ترقی کے لئے مضبوط درجہ رکھتاہے۔ پر تشدد  واقعات اور شدت پسندی کے رجحانات سے سرمایہ کاری اور صنعتوں کو نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی استحکام اور اقتصادی مضبوطی ہی دفاعی سلامتی کو یقینی بنانے میں موثر ثابت ہوتی ہے۔  ریاست کو دفاعی ضروریات پورا کرنے کے لئے جہاں محدود وسائل استعمال کرنا اہم ضرورت بن جاتے ہیں تو دوسری جانب ان کا انحصار ایسے ممالک پر بڑھ جاتا ہے جن سے سفارتی تعلقات مدوجزر کا شکار رہے۔ امریکی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی میں الینوائے کے ڈیموکریٹ نمائندے راجہ کرشنمورتی کا کہنا تھا، ”پچھلے بیس برسوں میں پاکستان امریکی فوج کی رسد جیسے کئی مختلف مقاصد کے لیے اہم رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اس دوران اعتماد کی کمی ہوئی ہے۔“ تاہم ان کا مزید کہنا تھا، ”میرے خیال میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم تعلقات کی ایک نئی تفہیم پر پہنچنے کے لیے ماضی کو بھلا سکتے ہیں؟  ”دا ریکروٹر“ کے مصنف ڈگلس لندن کہتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کے مابین تعاون کے اب محدود شعبے ہی باقی بچے ہیں۔ ان کے مطابق یہ دونوں ملک القاعدہ یا پھر ”اسلامک اسٹیٹ خراسان“ کے خلاف پارٹنرشپ کر سکتے ہیں کیوں کہ اسے یہ دونوں ہی ایک مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں۔


شیئر کریں: