Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خواتین کے قتل ، جرگہ مافیا اور انتظامیہ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

خواتین کے قتل ، جرگہ مافیا اور انتظامیہ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

 

قوانین کی بہتات انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔انصاف کے بغیر قوانین کی مثال علاج کے بغیر زخم جیسی ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے ملک میں قوانین پر قوانین تو بنائے جا تے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کروانے یا انصاف کی فراہمی میں بہتری آنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ غریب کے قوانین امیر، خواتین کے قوانین مرد اور مزدوروں کے لیے قوانین جاگیر داربناتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے اس ملک میں قوانین غریب کو ظلم کی چکی میں پیسنے اور غریب پر امیر کی حکمرانی کو تقویت دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ قوانین بنانے کے لیے عقل، دانائی، دانشمندی اور فہم و فراست کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں طاقت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی اسمبلی اور پارلیمنٹ جہاں 70%ممبران سزاء یافتہ، مفرور اور درجنوں ایف آئی آرز میں مطلوب ہوں ان سے کسی منصفانہ اورعادلانہ قانون یا اقدام کی امید وابستہ کرنا بچھو پالنے جیسا ہے۔ ارضی جنت نظیر وادی نیلم آزادکشمیر کی حسین و جمیل دھرتی گزشتہ چند سالوں سے بدامنی، لاقانونیت اور خواتین کے قتل کی وجہ سے خون میں رنگی جارہی ہے۔ دو سال کے قلیل عرصے میں درجن بھر خواتین کے قتل نے پوری وادی میں خوف و ہراس کی فضاء پیدا کر دی ہے۔ان درجن بھر قتل کی سفاک وارداتوں میں سے کسی ایک خاندان کو بھی انصاف نہیں ملا بلکہ تمام مظلومین کو انتظامیہ کی ملی بھگت سے جرگہ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جنہوں نے غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر شرعی اور غیر منصفانہ طریقوں سے اپنی دیہاڑی لگانے اور انتظامیہ کو ان کا حصہ پہنچانے کے بعد معاملات زندہ لاش کی طرح درگور کر دیے۔

 

جرگہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے بلکہ آئین پاکستان اور عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق کسی بھی قسم کا جرگہ یا پنجائیت غیر قانونی ہے اور یہ سنگین جرم ہے۔جرگہ یا پنجائیت انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیہUDHR اور International Convenant on Civil and Political  Rights(ICCPR)کے علاوہConvention on Elimination of all Forms of Discrimination against Women(CEDAW) کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہم عالمی سطح پر ان قوانین پرعمل کرنے کے پابند ہیں۔ آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی قسم کا جرگہ یا پنجائیت آئین کی دفعہ4, 8, 10-A,25اور175(3)کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ قانون، شریعت اور انصاف کے تقاضوں سے نابلد جرگہ یا پنجائیت مافیا اپنی انا، طاقت اور اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے انسانوں کو ظلم و انصافی کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں۔ آزادکشمیر بھر کی طرح وادی نیلم میں یہ جرگہ مافیا انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ مافیا انتطامیہ سے ملا ہوتا،انتظامیہ ان کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے اور اگر کوئی چوں چراں کرے تو اس کے خلاف جعلی ایف آر کاٹ دی جاتی، یا اسے حبس بے جا میں رکھ کر تشدد کر نشانہ بنایا جاتا ہے یا کم از کم اسے ڈرا دھمکا کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ کسی بھی سانحے پر جب دباو بڑھتا ہے تو کسی ایک فرد کو پکڑ کر افسران کو گرفتاری اور کاروائی کا کہہ کر الو بنا دیا جاتا ہے اور شام کو اس بندے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔

 

جرگہ مافیا اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے وادی میں درجنوں واقعات میں مظلومین کو طاقت سے چپ کروا دیا گیا اور چند واقعات کو ابھی تک لٹکا کر رکھا ہوا ہے۔ سرگن بکوالی میں خواتین کے قتل ہوں، نگدر میں لڑکی کو زندہ جلانے کا واقعہ ہو، شاردہ میں ریپ کیس ہو، لڑکیوں کو ورغلا کر بھگا لے جا کرکورٹ میرج کے معاملات ہوں یا گزشتہ 10دن سے دواریاں پالڑی کے ایک شریف اور غریب مزدور کی بیٹی کی اپنے معصوم بچے کے ساتھ گمشدگی کا معاملہ ہوہر معاملے میں جرگہ مافیا اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے انصاف کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ ایس پی نیلم کی درستخط شدہ درخواست پر ایس ایچ او کاروائی نہیں کرتا، 10دن گزر جانے کے باوجود بھی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے بلکہ انتظامیہ دونوں پارٹیوں کو قانونی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بجائے انہیں اس استحصالی جرگہ مافیا کے پاس جا کر معاملات کو رفع دفع کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اعتراض کرنے پر حوالات میں بند کرنے،ایف آئی آر کاٹنے اور سنگین نتائیج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ سرگن بکوالی کیس کو بھی سردخانے کی نظر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پولیس پورسٹ مارٹم رپورٹ نہ تو پبلک کر رہی ہے اور نہ ہی میڈیا کو فراہم کر رہی ہے۔جب بھی دباو بڑھتا ہے تو انتظامیہ کسی چھوٹے افسر کو قربانی کا بکرا بنا کر معطل کردیتی یا اسے کا تبادلہ کر دیتے اس حربے کے زریعے عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے بعد پھر وہی روش، وہی کام وہی ملی بھگت اور رشوت خوری شروع کر دی جاتی ہے۔

 

وادی کے سادہ لوح لوگوں قانونی آگاہی سے لاعلم ہیں۔ انہیں اپنے جائز حقوق کے حصول کے طریقہ کار اور قوانین کا بھی علم نہیں ہے اور جرگہ مافیا اور انتظامیہ غریب مفلوک الحال عوام کی اس کمزوری کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ظلم کی چکی میں پیستے چلے جاتے ہیں۔وادی نیلم کی جرگہ مافیا میں وہ لوگ شامل ہوتے جن کا نہ کوئی کاروبار ہے نہ ملازمت، ان کا کوئی زریعہ آمدن نہیں ہے وہ صرف غریب آدمی کو پھنسا کر اپنی دیہاڑی لگاتے ہیں اوریہ سب کے سب پولیس کے ٹاوٹ ہوتے۔ محکمہ پولیس کے افسران کو عوام اپنے ٹیکسوں سے اس لیے تنخواہ نہیں دیتی کے وہ انصاف کی فراہمی کے بجائے غریب عوام کو غیر قانونی و غیر آئینی جرگہ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ محکمہ پولیس عوام میں اپنی ساکھ، عزت اور مقام پہلے ہی کھو چکا ہے جس کا ثبوت بین الاقوامی رپورٹس ہیں۔ محکمہ پولیس اپنا وقاربحال کرنے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بچانے اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بجانے روز بروز تنزلی اور ابتری کی طرف گامزن ہے۔پورے کشمیر میں اس مافیا کا جال اتنا مضبوط اور بیانک ہے کہ آئی جی یا ڈی آئی جی تک رسائی نہ رکھنے والا کچل کر رکھ دیا جاتا ہے۔

 

آئی جی، ڈی آئی جی اور دیگر اعلی افسران کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کے ایک غریب آدمی ایف آئی آر کے اندراج یا کسی عام مسلے میں انصاف کے لیے ان تک پہنچنے پر کیوں مجبور ہو جاتا ہے اور 1000میں سے ایک فرد کسی ریفرینس سے ان گنت مشکلات اٹھانے کے بعد آئی جی یا ڈی آئی جی کے دورازے پر دستک دینے کے قابل ہوتا ہے۔ محکمہ پولیس کے اعلی افسران سے گزارش ہے وہ اس غیر قانونی جرگہ مافیا کو کنڑول کریں، ان کے غیر قانونی اورخلاف آئین جرگوں اور پنچائیتوں پرسرکاری مدعیت میں آیف آئی آر کے اندراج کے تحریر ی احکامات صادر کریں تاکہ عوام اس مافیا کے چنگل سے نکل کر قانون کی بالادستی پر یقین کریں اور محکمہ پولیس اپنی کھوئی ہوی ساکھ بحال کرتے ہوئے عوام میں اپنا اعتماد بحال کرے۔ آئی جی کمپلین سیل کو مزید بہتر بنایا جائے اور تمام پبلک مقامات پر اس کے استعمال کے طریقہ کار سے متعلق معلومات آویزاں کی جائیں۔ اخبارات میں عوامی آگاہی کے لیے باضابطہ اشہارات دیے جائیں یا کم از کم موبائل میسج کو یقینی بنایا جائے۔ انتظامیہ کی ملی بھگت اور رشوت ستانی کی وجہ سے یہ جرگہ مافیا اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ انتطامیہ بھی اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

 

لوگ بھی پولیس، قانون اور عدالتوں کے بجائے اسی مافیا کے ہاتھوں پستے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے روز بروز بدامنی میں اضافہ ہو تاجا رہا ہے، منشیات کی سمگلنگ بڑھتی جارہی ہے، قتل و غارت اور لوٹ مار کی شرح میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے۔ مجرمین کی ہمت بڑھتی جارہی ہے اور مظلومین کی ہمت اور امیدیں کرچی کرچی ہو رہی ہیں۔اگر ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او انصاف فراہم کرنے کے بجائے جرگہ کرنے پر مجبور کریں تو پھر اس ملک کا، اس قوم کااور اس کے مستقبل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ عوامی سطح پر یہ ہم سب کا فرض ہے ہم ظلم و ناانصافی کے خلاف ہر ممکن سطح پر آواز بلندکریں، مظلوم کاڈٹ کر ساتھ دیں اور ظالمین سے ڈرنے کے بجائے ان کے خلاف آواز بلند کریں۔ اگر ہم اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایک دوسرے کا تماشہ دیکھتے رہے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب یہ خونی لہر ہماری دہلیز کو پار کرتی ہوئی ہمیں اپنی لپیٹ میں لے کر بہا لے جائے گی۔ مدعیان سے بھی گزارش ہے انصاف کے لیے جرگہ مافیا کے بجائے قانونی راستہ اختیار کیاجائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
62227