Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاحت اور گداگری – پروفیسرعبدالشکورشاہ

Posted on
شیئر کریں:

سیاحت اور گداگری – پروفیسرعبدالشکورشاہ

 

 

سیر و سیاحت ذہنی تازگی،دوستانہ مراسم، مختلف رسم رواج اور ثقافتوں سے آگاہی کا اہم زریعہ ہے۔ لانگ ڈرائیو، ہرے بھرے میدان، سبزہ اور چراگاہیں،ٹھنڈی اور صاف آب وہوا، للہاتی جھلیں، شفاف آبشاریں،ٹھنڈے اور شفاف پانی کے چشمے، برف پوش پہاڑوں پر بادلو ں کی اٹکلیاں، نکھرتے پھول اور للہاتی فصلیں اور چہچہاتے پرندے ہماری یاداشت کا انمول حصہ بن جاتے ہیں۔ مگر سیاحتی مقامات پر گداگروں کے ڈیروں نے اس سارے لطف کو غارت کر رکھا ہے۔یہ اتنے ضدی ہیں کے سرکاری افسران کی طرح ان کی مٹھی گرم کیے بغیر کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ آپ کی سالانہ آمدن کا 5% کسی نہ کسی صورت میں گداگر مافیا لے اڑتا ہے۔ گداگرمافیا ایک منظم اورتاریخی نوعیت کا حامل پیشہ ہے جو قدیم یونان سے اب تک آئے روز پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ گداگری ان شعبوں میں سے ایک ہے جس میں ہر نسل، ہر رنگ، ہر ملک، ہر جگہ، ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔یہ مافیا دیکھنے میں معصوم اور لاچار دکھائی دیتا ہے مگر درحقیقت اس کے برعکس کئی گنا بیانک اور خوفناک ہے۔ اکیسوی صدی میں یہ شعبہ جرائم کی آماج گاہ بن چکا ہے۔

بھیک مانگنا صرف ترقی پذیرممالک کا ہی المیہ نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی گداگری کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی گداگر ویزے لے کر بھک مانگتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے ساتھ ہونے والے کسی حادثے کا ڈرامہ رچا کرواپسی کے ٹکٹ کے نام پر پیسے بٹورتے ہیں۔تاریخ اور سیاحتی مقامات ان کی ترجیحی منزل ہے۔ بھیک مانگنا ایک منفی رسم ہے، ہم آئے دن اس کو مضبوط کیے جا رہے ہیں۔ بھکاریوں کی بھر مار سیاحوں کی خوشی اور لطف کو خراب کر نے کے علاوہ  ہمارے ملک کے اچھے تاثر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے اور پوری قوم کی عزت نفس کا مجروح کرنے کے ذمہ دار ہیں۔سیاحتی مقامات پر گداگروں کے ڈیرے سیاحت اور سیاحوں پر حملے کے مترادف ہیں۔ الفاظ بہت بڑا ہتھیار ہیں اور بھکاری ان ہتھیاروں کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ الفاظ کے ساتھ چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات کا بھر پور سہارا لیتے ہوئے اپنے شکار کو قابو میں کر لیتے ہیں۔ گداگرمافیا کے رابطے انڈر گراونڈ کام کرنے والی مافیاسے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قانون ہونے کے باوجود یہ لوگ دندناتے پھرتے ہیں۔

اگر کسی دن غلطی سے پکڑ بھی لیے جائیں تو چند گھنٹوں بعد دوبارہ اپنے اڈے پر پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے باضابطہ طور پر اپنے علاقے تقسیم کیے ہوتے اور اپنے علاقے میں کسی اور بھکاری کو بھیک نہیں مانگنے دیتے۔اس مافیا کے درپردہ خفیہ طاقتیں موجود ہوتی جو ان کو روزانہ اس کام پر نہ صرف لگاتے ہیں بلکہ ان کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔پیشہ ور بھکاریوں کے علاوہ کچھ افراد حالات کی ستم ظریفی سے تنگ آکر بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں ان کے لیے حکومت متبادل زریعہ معاش کی منصوبہ بندی کرے تا کہ اس معاشرتی ناسور سے جان چھڑائی جا سکے کیونکہ کچھ افراد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ سیاحتی مقامات پر بھیک مانگنا ایک نفع بخش پیشہ بن چکا ہے۔سیاح بھکاریوں کو پیسے دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو کہ سرا سر غلط اور معاشرے کے بگاڑ کاسبب ہے۔اکیسوی صدی میں سیاحتی مقامات بھکاریوں کے لیے جنت بن چکے ہیں۔ اندرون یا بیرون ملک آپ کسی بھی سیاحت مقام پر چلے جائیں، بھکاریوں سے جان چھڑانا ناممکنات میں سے ہے۔ شہری اور مضافاتی علاقوں کے تاریخی و سیاحتی مقامات مری، سوات،کالام، وادی ناراں کاغان، گلگت بلتستان، وادی نیلم یا آزاد کشمیر حتی کہ کسی بھی خطے کی سیر پر روانہ ہوں،بھکاری سائے کی طرح آپ کا پیچھا کر تے ہیں۔

وادی نیلم جو گزشتہ چند سالوں سے سیاحت کا مرکز بنی ہوئی ہے وہاں بھیک مانگنے کو انتہائی گھٹیا سمجھا جا تاتھا۔ اب وادی نیلم میں بھی بھکاریوں نے اپنے ڈیر ے جما لیے ہیں۔ دور دراز کے گاوں کے بچے جوگھر سے لکڑیاں یا پانی لینے کے بہانے نکلتے ہیں اور سڑک پر سیاحوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے بارے علم نہیں کے سارا دن ان کے بچے کہاں رہتے۔ کچھ خاندان نہ صرف خود بھیک مانگتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی بھیجتے ہیں۔ انتظامیہ اور مقامی افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کے خاندان سے رابطہ کر کے انکو آگاہ کریں اگر وہ بچوں کو نہ روکیں تو انتظامیہ قانونی کاروائی کرے تا کہ پھیلتے ہوئے اس ناسور کو روکا جا سکے۔کچھ افراد معمولی نوعیت کی چیزیں بیچنے کے بہانے بھی بھیک مانگتے ہیں، وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کوشش کر رہے ہیں۔یہ بھیک مانگنے کا ایک انداز ہے۔ بھکاری اپنے آپ کو اپڈیٹ کر تے رہتے ہیں۔ اپنے آپ کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہیں۔کچھ بھکاری اب اچھے خاصے قیمتی لباس میں بن سنور کر بھیک مانگتے ہیں۔ ان کے پاس مہنگی گاڑی بھی موجود ہوتی ہے اور اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی ناخوشگوار سانحہ کی کہانی سنا کر پٹرول ڈلوانے اور واپسی کے خرچے کا تقاضا کر تے ہیں۔ایسے پیشہ ور گداگروں نے ساتھ خواتین گداگروں کو بھی فیملی کے طور پر رکھا ہوتا ہے تا کہ ہمدردیاں حاصل کرکے رقم ہتھیائی جائے۔ بعض اوقات یہ اپنے اے ٹی ایم کارڈ کے پھنس جانے یا گم ہونے کا بہانہ بھی استعمال کرتے ہیں۔شہری علاقوں میں تو بھیک مانگنے کے لیے باضابطہ طور پر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا تا ہے۔

ایزی لوڈ والی صباء اس کی ایک مثال ہے۔ کچھ افراد اپنی ناگفتہ بہہ حالت کے زریعے سیاحوں کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کچھ نے لوشنز لگا کر حالت بگاڑی ہوتی اور اکثر اداکاری کا سہار ا لیتے ہیں۔ بعض بھکاری بھیک مانگنے کے بجائے کھانا کھلادینے یا گھریلو ضرورت کی اشیاء کا تقاضا کر تے ہیں جو ان کا جدید ہتھیار ور طریقہ واردات ہے۔ایسے افراد سارا دن چیزیں اکٹھی کر تے ہیں اور شام بیچ کر پیسے جمع کر تے ہیں۔ بعض بھکاری اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے بھیک مانگتے ہیں اور یہ زیادہ تر گاڑیوں کے رش والی جگہوں کا انتخاب کر تے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات دوسروں سے قدرے مختلف ہو تا ہے۔ یہ جان بوجھ کر مہنگی گاڑی کے ساتھ ٹکراتے ہیں اور پھر اپنی اداکاری کے زریعے پیسے بٹورتے ہیں۔ کچھ بھکاری تو پرس نکالنے پر آپ کا پر س چھین کر بھاگ جا تے ہیں۔بھکاری کچھ نفسیاتی طریقے بھی اختیار کرنے لگے ہیں۔ آپ کا حلیہ اور آپ کی سواری کے حساب سے آپ پر نفسیاتی حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں سیٹھ جی اتنے امیر ہیں لاکھوں کی گاڑی ہے اور دس روپے دے رہے ہیں۔ بعض اوقات تو یہاں تک بھی کہہ دیتے دس روپے آپ مجھ سے لے لیں اب دس روپے سے آتا ہی کیا ہے۔

کچھ خواتین اپنے بچوں کو اٹھائے ان کے دودھ کے پیسوں کی التجائیں کرتیں ہیں۔کچھ بھکاری مزدورں کا حلیہ بنا کر سڑکوں پر بے روزگاری کا رونا رو کر پیسے مانگتے ہیں اگر انہیں کام پر لے جانے کی پیشکش کی جائے تو راستہ بدل لتے ہیں۔ اکثر بھکاری عشروں سے بھیک مانگ رہے ہیں اور ان میں سے بعض نے کئی گھر بنا کر کرائے پر دیے ہیں اور ان کی کئی گاڑیاں بھی چلتی ہیں مگر وہ ابھی تک بھیک مانگ رہے۔بھکاریوں میں سے اکثر جرائم پیشہ ہو تے یا ان کے جرائم پیشہ افراد سے روابط ہو تے۔ یہ بھیک مانگنے کے بہانے سیاحوں کی جاسوسی کر تے اور پھر گینگ کی صورت میں ان کو لوٹ لیتے۔ بعض واقعات میں سیاحوں کا جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑ تے ہیں۔ کوئی بھی چوک، چوراہا، سگنل، پارک، مزار، تاریخی مقام، تعلیمی ادارے غرضیکہ کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں پر گداگر موجود نہ ہوں۔انتظامیہ کو اس مسئلے کی طرف فوری توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اور مقامی افراد کے ساتھ سول سوسائیٹی کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

 

 


شیئر کریں: