Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مشورہ کیوں اور کس سے کیجائے؟-جان نظاری 

Posted on
شیئر کریں:

مشورہ کیوں اور کس سے کیجائے؟-جان نظاری

ایک دفعہ ایک اونٹنی دریا پار کر رہی تھی، اتنے میں لومڑی نے اسے دیکھ لیا۔ لومڑی نے بے دھڑک پوچھ لیا، پانی کا گہرائی کتنا ہے۔ اونٹنی نے بھی بلاججھک جواب دیا۔ گھٹنوں تک آتا ہے۔ لومڑی یہ سن کے فورا دریا میں چھلانگ لگا دی۔ چھلانگ کیا لگائی تھی، لومڑی مکمل ڈھوپ گئی۔ وہ بالکل زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی کہ اچانک اسے دریا کے کنارے ایک پتھر نظر آیا، وہ جان کی بازی لگاتے ہوئے اس پتھر تک پہنچ گئی اور اپنی جان بچا لی۔ جب وہ باہر نکل آئی تو اسے اونٹنی پے سخت غصہ آیا۔ وہ سیدھا سیدھا اس کے پاس چلی گئی اور غصے سے بولی تمھاری وجہ سے میری جان خطرے میں پڑگئی تھی۔ اس پے اونٹنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولی، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ لومڑی نے بولی تم نے جب کہا پانی گھٹنوں تک آرہا تو میں تمھارے بھروسے پانی میں چھلانگ ماردی، اور پانی اتنا زیادہ تھا کہ میں بہتے بہتے بچ گئی۔ اونٹنی نے کہا، ہاں تو میں نے ضرور کہا گھٹنوں تک آرہا لیکن میں نے یہ کبھی نہیں کہا تمھاری گھٹنوں تک۔ میں نے تو اپنے گھٹنوں کی بات کی تھی۔ یہاں اگر دیکھا جائے تو لومڑی بھی غلط نہیں تھی اور اونٹنی بھی اپنی جگہ حق بجانب تھی۔ ہم اگر اس مثال کو سامنے رکھ کے اپنی روزمرہ کی زندگی کا مشاہدہ کریں، تو ہمارے ساتھ بھی بسا اوقات ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں بھی جب روزمرہ کی زندگی میں ایسا کوئی کام کرنا پڑتا ہے، جس کا ہمیں مکمل علم نہیں ہوتا، ہم یا تو آدھا مشورہ کر لیتے ہیں یا غلط بندے سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ اور اس مشورے کو بنیاد بناکے اپنی کیرئیر کا آغاز کرتے ہیں، یا اس مشورے کی روشنی میں اپنے کسی پیارے کے کیرئیر کا بنیاد رکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا کسی حساس نوعیت کی بیماری کا علاج اس مشورے کی روشنی میں شروع کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ پشیمانی، افسوس، اور پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ یہاں میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان کو مشورہ نہیں کرنا چاہئے، لیکن یہ زندگی کے ان چند پیچیدہ اور حساس ترین معاملات میں سے ایک ہے، جس کی حصول کے لئے ہمیں غیر ضروری حد تک محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر وہ کام جس کا ہماری زندگی میں دور رس اثرات مرتب ہونے کی قوی امکان ہو وہاں پے انسان کو تسلی بخش مشورے کے بعد ہی آگے قدم رکھنا چاہئے۔ مشورے کی اہمیت کو اس لئے بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کیوں کہ، اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم ﷺکو بھی مشورے کا حکم دیا، ارشاد فرمایا: اے نبیﷺ! آپ معاملات اور متفرق امور میں صحابہٴ کرامؓ سے مشورہ کر لیجیے۔ (سورۂ آل عمران)

بظاہر تو رسولِ پاک ﷺ کو مشورے کی ضرورت نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ آپﷺ کے لیے وحی کا دروازہ ہمہ وقت کھلا ہوا کرتا تھا۔ آپﷺ جب بھی کسی مشکل میں ہوتے تو عین اسی وقت اللہ پاک اپنے فرشتے کے ذریعے وحی نازل فرماتے تھے۔ اس کے باوجود بھی اللہ پاک نے آپﷺ کو دنیاوی معاملات میں صحابہ کرام سے مشورے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے، یہاں پے یقینا اللہ تعالٰی اپنے مخلوق کو یہ پیغام دی ہے، کہ ہم جب بھی کوئی کام کرے، اس کے لئے اپنے آس پاس کے لوگوں سے مشورہ ضرور کیا جانا چاہئے۔ یہاں تک تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مشورہ کرنا کس قدر اہم ہے، لیکن یہاں پے یہ جاننا اس سے کچھ زیادہ اہم ہے، کہ مشورہ کب، کیسے اور کس سے کی جائے؟ اللہ پاک نے اس کائنات کا نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ یہاں پے ہر دوسرے لمحے ایک انسان کو دوسرے انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک انسان اپنے فیلڈ میں کتنا ہی مہارت کیوں نہ رکھتا ہو، اسے دوسرے انسان کی ہمہ وقت ضرورت پڑتا ہے۔ خاص کر اپنے بچوں کی کیرئیر کا فیصلہ کرتے وقت ہمیں انتہائی محتاط انداز سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے، یا جب بھی کسی فرد کو غیر متوقع بیماری لاحق ہو، یا خاندان میں ایسا کوئی واقعہ پیش آجائیں، بجائے کہ پریشانی کی عالم میں سب کچھ داو پے لگا کے دور دراز علاج کرانے کے راستے کا انتخاب کریں، پہلے اطمینان کیساتھ اس بندے سے مشورہ کی جائے، جو اس مخصوص فیلڈ میں مہارت رکھتا ہو یا جس نے پہلے اس نوعیت کی کیس کو ڈیل کر چکا ہو۔ اس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے تو، وہ زیادہ مناسب اور سازگار ثابت ہو سکتا ہے۔ آج کے زمانے میں موبائل اور انٹرنیٹ ہر دوسرے شخص کے پاس موجود ہیں۔ ہر وہ شخص جس سے ہم بات کرنا چاہتے ہو، بس ایک فون کال کی دوری پے موجود ہے۔

تاریخ شاہد ہے ہمیشہ سے وہی کام زیادہ کامیاب اور لمبا عرصہ چلا ہے، جس کے آغاز سے پہلے پلاننگ پے زیادہ کام کیا گیا ہے۔ زیادہ ماہرانہ رائے کی شمولیت سے بنایا گیا ہو۔ زیادہ آپشنز کی بنیاد پے اس کی تشکیل کی گئی ہو۔ اس فارمولے کی اطلاق ہماری روزمرہ کی زندگی میں بھی بالکل ویسا ہی ہے، جسطرح یہ کسی ملک یا کمپنی کی سطح پے ہوتے آیا ہے۔ آمر اس بات کی ہے، ہم کس حد تک مستند انداز میں مشورہ کرتے ہیں اور اس مخصوص مشورے کے لئے کتنے قابل بھروسہ اور ماہر شخص کا انتخاب کرتے ہیں۔ جیسا کہ عموما کہا جاتا ہے، انسان معاشرتی حیوان ہے اور وہ ہمیشہ وہی کرتا ہے، جو معاشرے میں ہوتے آیا ہے۔ بالکل ویسا ہی ہمارے معاشرے کا المیہ رہا ہے، اب اس تسلسل کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عموما گاؤں کی سطح پے دیکھا جائے تو عمر رسیدہ یا فوجی ریٹائرڈ حضرات اس انتہائی حساس معاملے میں پیش پیش نظر آتے ہیں، جو کہ کسی زمانے میں قابل قبول تھا لیکن اب وقت اس زمانے سے بالکل مختلف ہے۔ اب ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا دور ہے اور یہاں پے مشورہ دینے اور لینے کا رواج، سماجی معاملات میں بولنے اور سماج کو چلانے کا طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے۔ دور حاضر میں کسی کے بات میں وزن کو تولنے کا زاویہ عمر اور تجربہ نہیں پڑھائی اور ایکسپوژر کو مانا جاتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے نوجوان طبقے کو کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ قیمتی سرمایہ تب ہی منافع بخش ثابت ہوسکتا جب ہم اس کا استعمال علاقے کے سماجی اور سیاسی معاملات کو چلانے میں کریں۔ اس امید کے ساتھ اپنے اس کالم کا اختتام کرتا ہوں، بالخصوص گاؤں کی سطح پے نوجوان طبقے کو سماجی اور سیاسی معاملات چلانے میں حصہ دار سمجھا جائے گا اور ان کی بات اور رائے کو اہمیت دی جائیگی۔ انشاءاللہ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
61101