Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال ایک لیڈر سے محروم ہو گیا۔۔احتشام الرحمن 

شیئر کریں:

چترال ایک لیڈر سے محروم ہو گیا۔ احتشام الرحمن

شہزادہ محئی الدین صاحب کا شمار نہ صرف چترال اور خیبر پختون خواہ بلکہ پاکستان کے نامی گرامی سیاسی رہنماوں میں ہوتا ہے. آپ ایک دور اندیش سیاستدان اور عوامی رہنما تھے. آپ کی زندگی کا مقصد لوگوں کی خدمت اور آسانیاں پیدا کرنا تھا. ایڈمنسٹریشن کا حصہ رہنے کی وجہ سے آپ کی ایک منفرد بات یہ بھی تھی کہ آپ بیوروکریسی کے سرخ فیتے سے آسانی سے نمٹ  لیتے تھے.
آپ کی ان اعلی سیاسی خصوصیات پر مبنی چار واقعات کا  ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو شہزادہ محی الدین صاحب کے تدبر, سیاسی بصیرت اور عوام دوست سیاست دان ہونے کی گواہی دیتے ہیں.
Shazada Muhaidin
1.  چترال سکاوٹس کے لئے ایک ونگ کی منظوری
افغان جہاد جب اپنے عروج پر تھی تو چترال کے سویئر کے مقام پر روسیوں کی بمباری کے نتیجے میں چار جوان شہید ہوئے. جب ضیاء الحق وہاں آئے تو آپ نے سپاسنامہ پیش کیا. چترال کی دفاعی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے چترال سکاوٹس کے لئے تیرہ سو جوانوں پر مشتمل ایک ونگ کا مطالبہ کیا جسے ضیاء الحق نے منظور کیا. تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا.
کچھ عرصے بعد ضیاء الحق شندور تشریف لائے تو شہزادہ محی الدین صاحب نے دوران تقریر ضیاء الحق صاحب کو مخاطب کر کے  کہا  کہ آپ کے کہنے پر میں نے عوام سے وعدہ کی تھاا لیکن ابھی تک وہ پورا نہیں ہوا. آپ نے جھوٹ بولا تھا یا میں جھوٹ بول رہا ہوں.
اس پر صدر صاحب ناراض ہوئے اور روانہ ہوئے. گورنر فضل الحق نے چائے کے لئے کہا تو صدر صاحب نے کہا: “چائے تو محی الدین نے پلا دی.”
یہ محض تیرہ سو نوکریاں نہیں تھیں بلکہ اس کے ذریعہ تیرہ سو خاندانوں کی کفالت کا بندوبست کیا گیا تھا.
2.  ناممکن کاموں کو ممکن بنانے والا لیڈر
یہ واقعہ چترال کے دور افتادہ علاقے کوشت میں موجود ابن بطوطہ سکول کے پرنسپل یورگن اور اس کی اہلیہ وینڈی کے ویزوں سے متعلق ہے. ابن بطوطہ سکول کے صدر جناب حبیب انور صاحب اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں.
بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے ان دو لوگوں کے ویزے کینسل ہوئے تھے اور ان کے ویزے رینیو ہونے کے کوئی چانسز نہیں تھے. ان کو لیکر حبیب انور صاحب اس وقت کے ضلع ناظم شہزادہ محی الدین صاحب کے پاس گئے اور علاقے کے لئے ان کی خدمات کا ذکر کیا تو وہ ان کو لے کر اس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات صاحب کے پاس گئے اور صرف دو گھنٹوں کے اندر ہی ایک ناممکن کام کو ممکن بنایا.
دوسرا مسلہ یہ تھا کہ ان پر ایم ایم اے حکومت نے یہ الزام لگایا تھا کہ وہ اس علاقے میں عیسائیت کی تبلیغ کر رہے ہیں. اس لئے یورگن اور  وینڈی کو ناپسندیدہ افراد (persona non grata) قرار دیا تھا. آپ ان کو لے کر بلجیئم ایمبیسی گئے اور سارا ماجرا سنایا اور ان کی خدمات کا ذکر کیا. اس پر بلجیئم ایمبیسی والوں نے یورگن اور وینڈی سے معذرت کی اور ان کے مسائل کو حل کیا گیا.
اس وقت نہ صرف وہ کام کرایا بلکہ فیصل صالح حیات صاحب سے گلہ کیا کہ آپ لوگ ایک طرف جی ڈی لینگلینڈ کو صدارتی ایوارڈ کے لئے منتخب کرتے ہیں اور دوسری طرف وہی کام جو لوگ ایک دور دراز علاقے میں انتہائی مشکل حالات میں کرتے ہیں ان کے ویزے آپ لوگ کینسل کرتے ہیں. وزیر داخلہ صاحب اس پر شرمندہ ہوئے اور آپ سے معذرت بھی کی.
3. سیاسی مخالفین کی آپ کے بارے میں رائے
پچھلے سال عید قربان کے موقع پر جماعت اسلامی کے سابق تحصیل ناظم اور نامور ادیب امیر خان میر صاحب کے ساتھ نشست کا موقع ملا. آپ نے بتایا کہ جس وقت وہ تحصیل ناظم اور محی الدین صاحب ضلع ناظم تھے اس وقت دروش کے علاقے میں سیلاب نے تباہی مچا دی. آپ نے مجھے کال کی اور ساتھ لے کر وہاں گئے اور متعلقہ محکموں کو ہدایات دیں کہ سڑکوں کی مرمت جلد سے جلد کی جائے. میں نے فنڈز کی عدم دستیابی کا ذکر کیا  تو کہا اس کا بندوبست بھی ہو جائے گا. مختصرا یہ کہ دو دنوں کے اندر سڑکیں بحال ہو گئیں. آپ پشاور گئے اور کروڑوں کے فنڈ لے آئے.
آپ کا مزید کہنا یہ تھا کہ محی الدین صاحب جیسا لیڈر کم ہی پیدا ہوتے ہیں اور موجودہ دور کے سیاسی لوگ لیڈر کہلانے کے لائق نہیں. لیڈر ایک ہی تھا اور وہ شہزادہ محی الدین صاحب تھے. یہ سیاسی لوگ ہو سکتے ہیں لیکن لیڈر نہیں.
4.  بیوروکریسی سے کام نکالنے کا طریقہ کار
اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ سیاسی رہنما بیوروکریسی کے سامنے لاچار نظر آتے ہیں. چترال کے بعض منتخب نمائندگان کو تو مجبور ہو کر سپاہیوں کے خلاف دھرنے دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے. لیکن محی الدین صاحب میں یہ خصوصیت تھی کہ وہ کبھی ڈپٹی کمشنر کے آفس نہیں جاتے بلکہ ڈپٹی کمشنر کو اپنے آفس بلاتے اور کام کراتے. یہ خصوصیت صرف آپ ہی میں تھی یہاں تک کہ آپ کے بیٹے افتخار الدین صاحب میں بھی یہ کوالٹی نہیں پائی جاتی ہے.
اس کے علاوہ آپ ایک اعلی درجے کے مردم شناس انسان تھے. آپ کے قریبی احباب بتاتے ہیں کہ آپ کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ جو بندہ ایک بار آپ سے ملتا تو آپ نہ کبھی اس کا چہرہ بھولتے اور نہ ہی نام. دوسری بار ملنے پر ہر شخص  یہ خیال کرتا کہ اس سے ان کا کئی سالوں پرانا تعلق ہے.
آپ سیاسی میدان میں اعلی اخلاقیات کے عملی نمونہ تھے. آپ نے کبھی بھی اپنے مخالفین کے بارے میں غلط الفاظ استعمال نہیں کرتے. یہاں تک کہ سیاسی مخالفین کے غلط الزامات کو بھی درگزر فرماتے. یہی وجہ ہے آج آپ کے سیاسی مخالفین بھی آپ کے اعلی اخلاق کے معترف ہیں.
اگر آپ کی شخصیت کو ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو یہ درست ہوگا کہ آپ اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی اہل اقتدار سے زیادہ بااثر سیاستدان اور ہر وقت لوگوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار ایک اعلی  اخلاق کے مالک عوامی رہنما تھے.
Shazada Muhaidin 2

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
60812