Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

معاشرے میں کم عمری اور بھاگ کر شادی کرنے کی طرف رجحان کیوں؟-صوفی محمد اسلم۔

Posted on
شیئر کریں:

معاشرے میں کم عمری اور بھاگ کر شادی کرنے کی طرف رجحان کیوں؟۔ صوفی محمد اسلم۔

شادی کرنا ایک مقدس سنت ہے۔ انسان کو صحیح وقت پرشادی کرنا جسمانی،ذہنی اور روحانی صحت کیلئے ضروری ہے۔ اسلامی قوانین کے لحاظ سے بلوغت ثابت ہونے پر فورا شادی کرنا افضل ہے تاکہ بہت سے گناہوں سے بچا جاسکے۔ اسلامی قوانین میں شادی کی البتہ کوئ عمر مقرر نہیں تاہم اوسطا’ 12 سے 18 سال کامل بلوغت سمجھی جاتی ہے۔ شرعی قوانین کے مطابق  بلوغت ظاہر ہونے پر ولی کی موجودگی میں پسند کی شادی جائز ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قوانین کے مطابق شادی کے وقت  لڑکے کے عمر 18سال جبکہ لڑکی کی عمر 16 سال ہونا لازمی ہے۔ قبل از عمر شادی کو غیر قانونی اور قابل مواخذہ جرم سمجھی جائے گی ۔  چونکہ ہمارا معاشرہ میں  مشروط  اسلامی و تعزیری  قوانین نافذ ہیں۔ بوقت ضرورت ان قوانین یعنی شرعی و تعزیری قوانین میں سےمن پسند شق کی مدد سے مطلبہ مفادات  حاصل کی جاتی رہی ہے۔ جب چاہے اسلامی یا تعزیری قوانین کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ غیرقانونی ہونے کے باوجود نہ ایسی قبل از وقت شادی کو حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور نہ ان کے خلاف کوئ قانونی چارہ جوئی ممکن ہے۔  بچے بچیاں اسلامی قوانین کی پشت پناہی میں کم عمری میں بھاگ کے شادی رچاکر ناکام ازدواجی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتےہیں۔
ہمارا معاشرہ نیم شرعی معاشرہ ہے۔ ایک طرف ہم شریعت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف آزادانہ زندگی کے خواہاں ہیں ۔ ایک طرف گھروں میں پابندیاں سخت سے سخت تر کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف اولاد کی ذہنی نشونما و تربیت پر توجہ نہ دینے کے برابر ہے ۔ ایک طرف اولاد سے محبت میں ہر جائز و ناجائز کر گزرنے کے قائل ہیں تو دوسری طرف اولاد کے ساتھ وقت گزارنے اور انکے جائز رویئے برداشت کرنے کے قابل نہیں ۔بہتر پرورش کے نام پر ہزاروں پابندیاں عائد کرتے ہیں ، والدین ہم دوست رویہ اپنانے کے بجائے ڈیکٹیٹر بنے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے والدین اور اولاد کے بیچ خلیج پیدا ہوتی ہے۔ والدین اور اولاد کے بیچ اس گیپ کی وجہ سے ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے اور مل کر حل کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔حالیہ ایک واقعہ سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہے۔ کہ دعا الزہرہ نامی کراچی ملیر کا باشندہ بھاگ کر لاہور اکر ایک کم عمر لڑکے ظہیر سے شادی رچائ ہے۔ کہنے کو یہ ایک شرعی شادی ہے۔ دونوں فرقیں کی رضامندی سے کیا گیا شریعت محمدی کے تحت عمل پزیر ہوئی۔ بیان میں دعا موقف اپنایا ہے کہ میں ایک بالغ لڑکی ہوں۔ یہ میری حق ہے کہ میں اپنی مرضی شادی کروں۔ میرے والد مجھ پر دباؤ ڈال رہا تھا اور مجھے مار پیٹ رہا تھا۔ یہاں تک کہ والد کے خلاف ہراساں کرنے کی الزام لگاکر مقدمہ درج کرائی۔ دعا زہرہ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا اور میں دارالامان نہیں جاناچاہتی، میں محفوظ ہوں اور  میری جان کو کوئی خطرہ نہیں۔اس دوران پولیس نے لڑکی کو دارالامان بھیجنے کی استدعا پر عدالت  نے کہا  کہ  لڑکی جہاں جانا چاہتی ہے جاسکتی ہے۔ یہ واقعہ کوئ انوکھا و اکلوتا واقعہ نہیں جس میں والدین کو ایسے ردعمل کا سامنا کرنا پڑاہو  کئی بار بلکہ ہمارے معاشرے ہر دو دن میں ایسا واقعہ رونما ہوتا رہتا ہے۔ حالات واقعات سے ظاہر کہ لڑکی اور والدین کے بیچ بہت بڑا خلیج ہے۔  والدین اس گیپ کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی اور دعا اس کو کم کرنے کی اہلیت نہیں رکھی ہوگی۔ دونوں والدین و اولاد انا پرستی و خودغرضی جیسے عادت کے شکار ہوکر بالآخر اولاد بھاگ کر شادی میں ازادی تلاش کی۔
موجودہ دور میں والدین سے تربیت کرنے میں کونسے غلطیاں و کوتاہیاں سرزد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اولاد ایسے تلخ اقدام اٹھالیتے لیتے ہیں؟ ۔ میرے ناقص رائے میں اس کے پیچھے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ ہمارے معاشرے میں ذہنی نشونما نہ ہونے کے برابر ہیں ۔  حکومت، والدین و اساتذہ کرام بچوں کو وہ ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہیں جو ایک بچے کی نرمل ذہنی نشونما کیلئے ضروری ہے۔ جس طرح جسمانی نشونما کیلئے غزائیت کی ضرورت ہے اسی طرح ذہنی نشونما کیلئے بھی مثبت موٹیویشن اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔  دوسرا یہ کہ ہم غیر ضروری اولاد پر دباؤ بڑھائے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے مسائل و جائز خواہشات کے اظہار سے گھبراتے ہیں ۔ تیسرا والدین اپنے مرضی اولاد پر غیر ضروری مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اولاد کی رائے ،پسند نا پسند کو کوئ مقدم  نہیں سمجھتے ۔  چند ہذا کمی بیشیوں کی وجہ سے ایسے مسئل پیدا ہوتے ہیں۔ جسکا حل خود حکومت، والدین اور سکول و تربیتی ادارے مل کر تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔حکومت اور عدالت  کو چاہئے یکسان قوانین لاگو کرے۔ یہ بات درست نہیں کہ اسلامی قوانین میں سے من پسند قوانین پر عملدرآمد ہو اور مشکل قوانین کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ اگر پسند کی شادی جائز ہے  اور عمر کی حد مقرر نہیں تو اسلامی نقطہ نظر سے ولی کی موجودگی بھی تو لازم ہے اور ولی کی موجودگی میں پسند کی شادی جائز ہے۔ اسلامی و ملکی قوانین کے دھجیاں نہ اڑائیں۔
جس طرح معاشرہ تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ دور جدید میں وسائل تک رسائی بہت آسان ہوگئی ہے۔ موبائل انٹرنیٹ تک رسائی ایک طرف آسانیاں پیدا کیے ہیں تو دوسری طرف بہت سے پیچیدگیاں و مسائل بھی پیدا کیے ہیں ۔ والدین اور حکومت کو چاہیے کہ جس طرح جدید آلات مواصلات وغیرہ کی دستیابی اسان بنائے ہیں ان کی درست استعمال ، ان سے پیدا ہونے والے مسائل سے بھی باخبر رکھنے اور ان مسائل کے حل کیلئے ضروری اقدامات کرے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے ادارے تشکیل دے جو جوانوں کے ذہنی نشونما پر کام کرے انہیں موٹیویٹ کرے اور والدین کو تربیت کے عالی’ مغیار کے طریقےسکھائے ۔ سکولوں کا کام صرف نصابی کتابیں پڑھنا نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کرنا بھی انہیں ادارے کی اولین فرائض میں شامل ہیں۔ ایک پریڈ رہنمائی اور مثبت موٹیویشن  کیلئے مختص کرے۔ بچوں میں غیر معمولی تبدیلی کی صورت میں والدین کو اگاہ کرے۔ والدین کو چاہیے اپنے مسائل سائیڈ میں رکھ کربچوں کو بھی کچھ وقت دے ،ان کے مسائل سنئے اور عمر کے لحاظ سے پیدا ہونے والے مسائل سے اگاہی کے ساتھ ساتھ مسائل کے حل بھی بتائیں ۔ ماحول کو اتنا سخت نہ بنائیں کہ ذہنی نشونما پر برا اثر پڑے اور ناتواں و ناپختہ ذہنیت کے بچے خود سے ان مسائل کے حل تلاش شروع کردے۔ اولاد کو کوئ مشکل اور مسلہ درپیش ہونے کی صورت میں والدین باآسانی دستیاب ہو تو ایسے اقدام اٹھانے کی نوبت ہی نہیں ائے گی ۔حکومت کو بھی چاہیے کہ ایسے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنا ئے جس میں کم عمری اور بھاگ کے شادی کرنے جیسے اقدامات کی حوصلہ شکنی ہو۔
وما علینا الاالبلاغ
صوفی محمد اسلم۔

شیئر کریں: