Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ میٹھے لوگ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔ میٹھے لوگ ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ایک بار پھر رمضان المبارک کی روح پرور گھڑیاں جاری و ساری تھیں پوری دنیا کے مسلمان پورے مذہبی جوش و خروش سے سحری افطاری کا اہتمام کر رہے تھے مخیر حضرات راشن اور اجتماعی سحری وافطاری کا اہتمام مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ کر رہے تھے میں بھی پوری طرح سحری وافطاری عبادات ذکر اذکار میں مگن تھا آج بھی روزانہ کی طرح بھرپور مزے دار افطاری نماز آرام کے بعد واک پر نکلا ہوا تھا عشاکی نماز کے بعد میں تیز قدموں سے سڑک چھاپ رہا تھا تاکہ بڑھتے وزن کو اعتدال کی حدوں میں لانے کی کوشش کروں ٹھنڈے ٹھار مزے دار مشروبات کی وجہ سے جسم توانائی سے بھرپور تھا اِس لیے میں تیز قدموں سے واک کر رہا تھااِسی واک کے دوران ایک گلی میں داخل ہواتو بہت سارے لوگوں کو آپس میں گالی گلوچ لڑتے دیکھا پہلے تو میں نے واپسی کا سوچھا لیکن پھر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر تیزی سے مجمعے کی طرف بڑھا شور و غل گالیوں کی آوازیں زوروں پر تھیں قریب جانے پر تھوڑی دیر میں ہی لڑائی جھگڑے کی وجہ سمجھ آگئی اِس گھر والے رمضان راشن وغیرہ بانٹتے تھے رش بتا رہا تھا کہ یہاں پر روزانہ کی بنیاد پر وافر راشن با نٹا جاتا ہے چنگڑ برادری کی عورتیں بچے بہت زیادہ تعداد میں تھے

یہ خانہ بدوش چنگڑ برادری کے لوگ مذہب اخلاقیات سے دور مادرِ پد ر آزاد جانوروں کی سی زندگی گزارتے ہیں اِن کی عورتیں آکر دروازے کو پیٹنا شروع کر دیتی ہیں گھر والے آکر اگر انکار یا معافی کا بول دیں تو اِن کی جہالت اور حیوانیت بیدار ہو جاتی ہے پہلے تو یہ زبانی طور پر آپ کو بد دعائیں دے کر ڈراتے ہیں کہ اگر آپ نے اِن کو راشن کے پیسے نہ دئیے تو یہ آپ کو دوزخ میں داخل کرا کر چھوڑیں گے اگر اِن کو تھوڑے پیسے تھوڑا راشن دینے کی گستاخی کر یں تو یہ گستاخی عظیم ہوتی ہے یہ بآواز بلند آپ پر گالیوں کی برسات کر دیتے ہیں اِس دوران اگر دروازہ کھلا ملے اور اندر راشن کے پیکٹوں پر اِن کی نظر پڑ جائے تو یہ چنگیزی لشکروں کی طرح راشن پر حملہ آور ہو کر اپنی مرضی اور تعداد کا راشن اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں یا دھینگا مشتی پر اُتر جاتے ہیں اِس قدر جارحیت پر اُتر آتے ہیں کہ جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے

یہاں بھی یہی ہوا گھر والوں نے جو راشن دینا تھا وہ دے دیا اب لوگوں کی تعداد زیادہ تھی چند پیکٹ جو گھر والوں نے کسی کو دینے تھے جب اِن حملہ آور چنگڑوں کی نظر اِن پر پڑی تو انہوں نے فطری جبلت کے تحت اُن پر حملہ کر دیا پٹھان چوکیدار نے سامان کو حملہ آوروں سے بچانے کی کو شش کی تو باتوں سے مسئلہ ہاتھوں اور دھکم پیل پر چلا گیا ایک عورت کو دھکا دیا اُس کا سر دیوار سے ٹکرایا تو خون کا فوارہ پھوٹ نکلا اب تو چنگڑ برادری کو موقع مل گیا گا لیوں کے ساتھ بلیک میلنگ شروع کر دی گھر والوں نے حالات بگڑتے دیکھے تو آکر راشن پیسے دے کر حملہ آوروں سے جان چھڑائی۔ایسے لڑائی جھگڑے ہمیں رمضان المبارک میں اکثر گلی محلوں سڑکوں پر نظر آتے ہیں جب مخیر حضرات آٹے کے ٹرک لا کر کھڑے کر دیتے ہیں راشن کے پیکٹ تاکہ ضرورت مندوں کو دے سکیں پھر جب اصل ضرورت مندوں کی جگہ یہ جنگلی خانہ بدوش اپنے خاندان کے ساتھ آکر جب حملہ آور ہو تے ہیں تو دینے والوں کا صبر کا پیمانہ چھلک جاتا ہے حقیقی ضرورت مند کبھی لڑائی نہیں کرتا بلکہ وہ تو پہلے ہی حالات کا مارا ہو تا ہے وہ جارحیت کی بجائے شکر گزار ہو تا ہے دوسری انسانی نفسیات یہ بھی ہے کہ جہاں بھی کوئی کسی کو جب کوئی چیز پیسے راشن دینے لگتا ہے تو اُس میں عجیب سا احساس تفاخر غرور آجاتا ہے

وہ نخوت تکبر سے لینے والوں کو حقارت سے دیتا ہے کہ میں دینے والا ہوں تم میرے احسان مند ہو یہ نہیں ہو نا چاہیے اِس میں کوئی شک نہیں کہ لینے والوں میں جارحانہ مزاج لوگ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی دینے والے کو نرم مزاج عاجز ہونا چاہیے شاکر ہونا چاہیے یہ انسانی فطرت ہے کہ جب بھی کسی کے کام کر تا ہے کسی کو کچھ دیتے ہیں تو اُس کی نظروں اور لہجے میں احساس تفاخر غرور نظر آتا ہے پھر دینے کے بعد دینے والا یہ توقع کر تا ہے کہ لینے والا اب اُس کا غلام ہے احسان مند ہے دوبارہ جب کبھی لیے والا ملے تو غلاموں کی طرح احسان مند وں کی طرح نظر جھکا کر ملے یہ بلکل بھی احسن عمل نہیں ہے کیونکہ دینے والے کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے پاس سے کچھ نہیں خدا کے دئیے ہوئے مال سے دے رہا ہے گردش لیل و نہار کے بعد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مانگنے والا ہو اور لینے والا دینے والا ہو کیونکہ حق تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمایا ہے کہ ہم دنوں کو انسانوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں آج اگر کوئی دولت مند طاقت ور صاحب اقتدار ہے تو آنے والے دنوں میں معاملہ الٹ بھی ہو سکتا ہے دینے والا یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ اگر کوئی آپ کے سامنے کوئی حاجت یا دامن مراد پھیلائے کھڑا ہے تو پتہ نہیں ذلت شرمندگی کے کتنے صحراؤں سے گزر کر آیا ہے

کتنی بار اُس کے قدم لڑکھڑائے ہوں گے کتنی بار زبان لڑکھڑائی ہو گی کتنی بار راستے سے مڑ گیا ہو گیا یہ انسانی جبلت کی بہت بڑی کمزوری ہے کہ جب بھی کسی کی زندگی میں آسانی یا کچھ دیتا ہے تو غرور بڑا پن تکبر آہی جاتا ہے یہی غرور تکبر نیکیوں کو کھا جاتا ہے آجکل ماہ رمضان کی ساعتیں جاری ہیں بہت سارے لوگ سخاوت اور راشن بھی بانٹ رہے ہو نگے لیکن آپ اِن میں سے اکثر چہروں اور لہجوں میں غرور کے رنگ دیکھیں گے جو بہت غلط ہے دیتے ہوئے اگر کسی کو عاجز پایا تو یہ صرف اور صرف اولیا ء اللہ ہی تھے جو کچھ دے کر پھر گلے سے لگاتے ہیں اور لینے والا کا شکر بھی ادا کرتے ہیں میری ریاضت کے ابتدائی ایام جاری تھے میں ان دنوں کو ہ مری میں تھا رمضان میں اکثر شہنشاہ بحر و بر حضرت امام بری سرکا ر ؒکے مزار پر افطاری کا موقع ملتا تو وہاں پر ایک حاجی صاحب اکثر بہت سارے لوگوں کو افطاری کراتے تھے

انہوں نے جب بھی شہنشاہؒ کے مزار پر آنا آکر نہایت پیا ر اہتمام سے وسیع و عریض چٹائی بچھائی پھر اُس پر انواع و اقسام کے پھل فروٹ مشروبات پکوڑے سموسے بریانی و غیرہ سجا دیتی پھر مزار پر آئے ہوئے زائرین کے پاس فرداً فرداً جا کر پیار سے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پیار سے کہنا جناب آج افطاری میرے ساتھ کریں پھر پیار سے لا کر عزت دے کر چٹائی پر بٹھا دینا پھر افطاری کے دوران فرداً فرداً سب کے پاس جا کر دیکھنا پوچھنا جو چیز کم ہو وہ رکھ دینی افطاری کے جب لوگوں نے شکر ادا کر نا تو شہنشاہ ؒ کے مزار کی طر ف اشارہ کر کے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جھک کر کہنا جناب یہ تو شہنشاہوں کی اور آپ کی مہربانی ہے مُجھ فقیر پر احسان ہے جو شہنشاہ ؒ نے اپنی غلامی میں مُجھ سیاہ کار کو قبول کیا اور آپ نے میری افطاری قبول کی پھر اگر وہ کسی بہت غریب کو دیکھتے تو پیسے اُس کی جیب میں ڈال کر اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے یہ نذرانہ قبول کرلیں.

پیسے فقیر کی جیب میں اِس عاجزی محبت سے ڈالتے کہ لینے والے کو شرمندگی نہ ہو حاجی صاحب کی انسان دوستی محبت عاجزی مجھے بہت متاثر کرتی وہ جب بھی آتے میں اُن کی صحبت سے خوب لطف اٹھا تا ایک دن موقع ملا تو میں نے حاجی صاحب سے پوچھا جناب آپ اِس قدر عاجز اور میٹھے کیوں ہیں آپ جیسے میٹھے لوگ میں نے کہیں نہیں دیکھے اِس کی وجہ کیا ہے تو حاجی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے شہنشاہ کوہسارؒ کے مزار کی طرف اشارہ کر کے بولے میرے والد صاحب بھی میرے شہنشاہ ؒ کے غلاموں میں شامل تھے وہ بھی یہاں افطاری کراتے تھے میں جوانی میں اُن کے ساتھ تھا جب میں سختی کرتا غرور کرتا تو بولے جب کسی کو کچھ دو تو یہ ذہن میں رکھو کہ تم دینے والے کی بجائے لینے والے بھی ہو سکتے تھے اگر تم لینے والے ہوتے تو کیا سلوک مانگتے وہ بات میں نے پلے باندھ لی اب میں جب بھی کسی کو کچھ دیتا ہوں تو سوچھتا ہوں کہ لینے والا میں بھی تو ہو سکتا ہوں اِس طرح میرے لہجے میں مٹھاس آجاتی ہے۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
60635