Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ راشن کی برکت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔ راشن کی برکت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے حیران کن منظر کے ساتھ میرے مرحوم دوست شیخ صاحب کا نافرمان غصیلا بیٹا عاجزی شرمندگی کی تصویر بنا کھڑا تھا اِس کا نام عبدالرحمن تھا جو اپنے مرحوم باپ کے ساتھ اکثر مُجھ فقیر سے ملنے آتا تھا شیخ صاحب اولیاء اللہ سے بہت عقیدت و پیار کرتے تھے مُجھ گناہ گار کو بھی اللہ کا نیک بندہ سمجھ کر اکثر ملنے آجاتے تھے روحانیت تصوف اولیاء اللہ سے عقیدت رکھتے تھے انسانوں کے اُس گروپ سے تعلق رکھتے تھے جو اِس بحث میں پڑے بغیر کہ جس روحانی بندے سے یہ مل رہے ہیں وہ حقیقی نیک بندہ جہاں کسی کا پتہ چلا کہ فلاں جگہ کوئی بزرگ بابا ہے تو یہ اُس کے کو چے کے پھیرنے لگانا شروع کردیتے شیخ صاحب ایک کامیاب فیکٹری پیٹرول پمپ اور بہت ساری دکانوں کے مالک تھے جہاں سے اِن کو ایک بڑی رقم ہر ماہ آتی تھی اِس خوشحالی کی وجہ سے یہ جہاں بھی جاتے نذرانے کے طور پر خوب خدمت کرتے۔ تحائف کی وجہ سے یہ بزرگ آستانے کے منظور نظر تھے کسی نے میرے بارے میں بتایا تو مُجھ تک بھی آن پہنچے۔

واپسی پر جب انہوں نے بڑی رقم نذرانے کے طور پر دینے کی کو شش کی تو جب میں نے پیار سے انکار کر دیا تو بہت حیران ہو ئے اب انہوں نے نیا کام شروع کیا جب بھی آئے تو پیسے کی بجائے مختلف قسم کی مٹھائیاں فروٹ حلوہ جات مختلف قسم کی سوغاتیں لے کر آتے پھر عقیدت سے سرشار لہجے میں کہتے تحفے دینا لینا تو سنت ِ رسول ﷺ ہے یہاں آپ انکار نہیں کر سکتے میں شیخ صاحب کی دریا دلی سخاوت دیکھ کر اکثر پوچھتا شیخ جی میں اپنی زندگی میں پہلی بار خدا کا کرشمہ دیکھ رہا ہوں کہ شیخ صاحب اپنی حلال کی کمائی بے دردی سے دوسروں پر لٹا رہے ہیں اِ س راز کی حقیقت تو مُجھے بتا دیں تو شیخ صاحب پیار سے میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے میراہا تھ پکڑ کر چومتے اور میٹھے لہجے میں بولے میری ماں شیخ قوم سے نہیں تھی والد صاحب بچپن میں ہی انتقال کر گئے تو میری پرورش والدہ اور ناناجی نے کی میرے نانا جی اور والدہ کسی نیک بزرگ کے بیعت تھے اِن بزرگوں کی صحبت کی وجہ سے دونوں خدمت خلق اور سخاوت پر ساری زندگی عمل پیرا ہے

اماں اور نانا کی آغوش نے مجھے بھی سخاوت اور خدمت خلق پر لگایا پھر مسکرا کر کہتے ماں جی کے مرشد کے پاس میں بھی بہت جاتا تھا وہ بھی مُجھ یتیم سے بہت پیار کر تے تھے ان کی خاص دعا توجہ یا صحبت کا اثر بھی ہے جو میں شیخ ہو کر بھی دولت سے پیار نہیں کرتا شیخ صاحب کے ساتھ چند ملاقاتوں میں ہی ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے ایک دن کہنے لگے پروفیسر صاحب میں آپ کا بیعت ہو نا چاہتا ہوں تو میں مسکرا کر بولا شیخ صاحب یہ اعزاز آپ مجھے کیوں عطا کر نا چاہتے ہیں تو بولے میں پچھلی چند ملاقاتوں میں جان گیا ہوں کہ آپ دنیاوی بابوں میں سے نہیں ہو میں آپ کو ہر قسم کا لالچ دے کر بھی دکھ چکا ہوں پھر آپ کے پاس گھنٹوں گزارتے ہوئے آپ کے پاس آنے والے ملاقاتیوں کا بھی بغور مشاہدہ کر چکا ہوں آپ واقعی پیسے کا لین دین نہیں کرتے ورنہ میں جو ساری زندگی نام نہاد بزرگوں کے پاس جاتا رہا وہاں پر چند ملاقاتوں کے بعد ہی نظر آگیا کہ لوٹ مار کے کون سے اوپن اور خفیہ طریقے ہیں جن سے غریب ضرورت مند وں کو لوٹا جا رہا ہے پروفیسر صاحب اب میں نے دوسرے بابوں کے پاس جانا کم کر دیا ہے آپ کے پاس آنے کو بہت دل کر تا ہے تو میں مسکرا کر بولا شیخ صاحب آپ کی والدہ اور آپ کے مرشد بہت باکمال ہیں آپ کا فیض ادھر سے ہی جاری ہے آپ کو وہاں پر ہی بیعت رہنا چاہیے میں آپ کا دوست اور بھائی ہوں میری دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں

اِس طرح میری شیخ صاحب سے دوستی اور بھائی چارے کا رشتہ استوار ہو گیا وہ جس شہر بھی جاتے وہاں کی مشہور سوغات میرے لیے ضرور لاتے میں بھی اب ان کی کمپنی بہت انجوائے کرتا کیونکہ وہ اصلی اولیا کرام کے عاشق ماننے والے تھے خدمت خلق سے سرشار انسانوں سے پیار اور محبت کرنے والے جب بھی آتے مختلف اولیاء اللہ کی کرامات باتیں زیارتیں میرے ساتھ شئیر کرتے پھر واپسی پر گھٹنوں کا ہاتھ لگا کر سر گوشی میں کہتے میرے لائق کوئی حکم ہو تو میں جپھی ڈال کر بولتا شیخ جی آپ کی محبت پیار ہی سب کچھ ہے شیخ صاحب جب بھی آتے ان کا جوان بیٹا بھی ساتھ ہو تا جو لاپرواہ اکھڑ بے نیاز سا بیٹھا رہتا اُس کے چہرے اورآنکھوں میں عقیدت تو دور کی بات بے زارگی ہوتی جیسے مجبوری میں آیا ہے ایک دن شیخ صاحب بولے پروفیسر صاحب یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے آگ سے بھرا ہوا بہت غصیلہ شادی شدہ بیگم بھی ناراض ہمیں بھی تنگ کر تا ہے بزرگوں کو بلکل نہیں مانتا بلکہ مذاق اڑاتا شیخ صاحب اِس کے رویے سے بہت دل گرفتہ اور شاکی تھے شیخ صاحب امیر تھے اِس لیے بیٹا مجبوراً باپ سے بنا کر رکھتا لیکن مزاج کا اکھڑ پن غصہ تکبر غرور بھرا ہوا شیخ صاحب کے الٹ تھا شیخ صاحب ریشم تھے یہ سنگ دل پتھر کا بنا ہوا شیخ صاحب کہتے میں نے اِس کا نام عبدالرحمن رکھا ہے لیکن یہ خدا کا بند ہ نہیں بنتا میں شیخ صاحب کو حوصلہ دیتا آپ پریشان نہ ہو جوانی ڈھلے گھی تو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا

پھر مجھے کسی نے بتایا شیخ صاحب اب اِس دنیا میں نہیں رہے لیکن شیخ صاحب کا نورانی چہرہ باتیں بزرگوں سے پیار میرے دل میں آباد ہو گیا آج شیخ صاحب کا وہی اکھڑ غصیلا بد مزاج بیٹا بدلے ہوئے روپ میں عاجز سر جھکائے شرمندہ سا میرے سامنے کھڑا تھا مجھے شیخ صاحب یاد آگئے بڑھ کر بیٹے کو گلے لگا یا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ہچکیوں کے درمیان بولا سر میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں اور اُن لوگوں کی لسٹ لینے آیا ہوں جن ضرورت مندوں کو والد صاحب ہر رمضان میں راشن دیا کرتے تھے وہ ضرورت مندوں کے نام آپ سے لینے آیا کرتے تھے سرمیں بد ل گیا ہوں پہلے والا بد مزاج غصیلا نہیں بلکہ کمزور عاجز سا بندہ ہوں سر میں بھی والد صاحب کی طرح آپ سے دعائیں لینے آیا کروں گا میں خوشگوار حیرت سے عبدالرحمن کو اندر لے آیا صوفے پر بٹھایا اور بولا بیٹا یہ تبدیلی کیسے آئی تو وہ گلو گیر لہجے میں بولا سر میں والد صاحب کے ہوتے ہوئے لاپرواہ اکھڑ مزاج ضدی شخص تھا ہر چیز بیٹھے بٹھائے جو مل جاتی جب والد صاحب کا سایا سر سے اٹھا تو لگا میری چھت ہی اڑ گئی ہے میں اکلوتا تھا بے یارو مدد گار غم جدائی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا دن رات ماں کے پاس بیٹھ کر روتا اور والد صاحب کو یاد کرتا بار باروالد ہ سے معافیاں مانگتا والد صاحب کی قبر مبارک پر جا کر ہاتھ جو ڑ کر معافی مانگتا والدہ سے بار با ر پو چھتا والد صاحب مجھے کیسے معاف کریں گے تو ماں نے کہا تم چاہتے ہو تمہارے والد تم سے خوش ہو جائیں تو ویسے بن جاؤ جیسے وہ چاہتے تھے رمضان مبارک آگیا اُن لوگوں تک راشن پہنچاؤ جن تک وہ پہنچاتے تھے پھر میں نے اگلے ہی دن اُن ضرورت مندوں کے گھروں میں خود جا کر راشن دینا شروع کیا سر جب کسی ضرورت مند غریب کو راشن اور پیسے دیتا تو جو چمک خوشی اُن کے چہروں اور آنکھوں میں نظر آتی اُس نے میرے تکبر غرور کے سانپ کو کچل دیا لوگوں کو خوش دیکھ کر میرے باطن سے عاجزی سرشاری کے فوارے پھوٹتے میں چند دنوں میں ہی عاجز تبدیل ہو گیا اب میں پہلے والا نہیں رہا آپ کے پاس بھی اُن ضرورت مندوں کی لسٹ لینے آیا ہوں جن کو والد صاحب راشن دیتے تھے سر مجھے دنیا و جہاں کے وظیفے لیکچر نہ بد ل سکے لیکن راشن کی برکت اور ضرورت مندوں کے چہروں کی خوشی نے بد ل دیا اب میں ساری زندگی والد صاحب کے مطابق گزاروں گا پھر وہ بہت ساری باتیں وعدے کر کے چلا گیا اور میں سوچنے لگا سخاوت خدمت خلق کس طرح پتھر دل کو ریشم کی طرح نرم کر دیتی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
60468