Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ انوکھی افطاری ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on
شیئر کریں:

بزمِ درویش۔انوکھی افطاری۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

رمضان المبارک کا پہلا عشرہ جاری تھا میں ایک خاص انوکھی افطاری کے لیے شہر لاہور کے قدیمی قبرستان میانی صاحب آیا ہو اتھا میرے میزبان کا ملازم میرے انتظار میں تھا میں اُس کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا شہر خموشاں پر سناٹا طاری تھا میں نئی پرانی کچی پکی قبروں کے درمیان چلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا قبرستان کی اداسی پراسرارہٹ میرے ر گ و پے میں رینگ رہی تھی میرے دائیں بائیں دور تک وہ لوگ مٹی کی چادریں اوڑھے سو رہے تھے جو جب زندہ تھے تو اِس خبط میں مُبتلا تھے کہ نبض کائنات اُنہی کے دم سے رواں دواں ہے وہ اِس معاشرے دھرتی ملک کے لیے بہت ہی خاص ہیں اگر وہ پردہ جہاں سے ہٹ گئے تو کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ جائے گا زندہ انسان اِس اٹل حقیقت سے بے خبر ہو تا ہے کہ اُس کی زندگی کی چولی کے ساتھ فنا کا دامن لگا کر خدائے لازوال نے خاص ضروری ہونے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے خود کو خاص ضروری سمجھنے کے خبط نے بزم ِ جہاں کو مستقل عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے

اگر مشت ِ غبار یہ جان اور مان لے کہ جو بھی یہاں آیا وہ حقیقت میں یہاں سے جانے کے لیے آیا ہے ہر گزرتا سیکنڈ فنا کا پیغام ہے ہر آنے والا لمحہ مہلت حیات کو کم کر رہا ہے بلکہ موت کی طرف رینگ رہا ہے تو انا غرور نا گزیر ہونے کا فتنہ کبھی دماغ میں جنم نہ لے جس نے پوری دنیا کو بھونچال میں مبتلا کر رکھا ہے خدا کے بر گزیدہ بندے انبیاء کرام اور اولیا اللہ جو دراصل خلاصہ کائنات اور حاصل زندگی تھے جب وہ یہاں سے نقارہ کوچ بجا گئے تو اور کون ہے جو حیات جاوداں کے وہم میں پڑا ہے پردہ جہاں پر نمودار ہو نے والے بڑے سے بڑے انسانوں کو اگر لوہے پتھر کے قلعے نہ بچا سکے تو گوشت کا معمولی پنجرہ کیسے انسان کو بچا سکتا ہے روز اول سے آخر تک کوئی دور ایسا نہ ہو گا جو موت سے آشنا نہ ہو گا ہر روز نظروں کے سامنے پیارے موت کے اندھے غار میں گم ہو تے ہیں لیکن پھر بھی خاک کا پتلا اِس خبط میں مبتلا ہو تا ہے جو لوگ چلے گئے وہ اِس جہاں کے لیے ضروری نہیں تھے میں بہت خاص اور ضروری ہوں عام انسان سے سلطانوں تک یہ بیماری ہر ذی روح میں سمائی ہے کہ میں بہت خاص ضروری ہوں میر ے دائیں بائیں ایسے ضروری لوگوں کی قبریں پھیلی تھیں جن میں ایسے سیاستدان بھی تھے جو عہد جوانی میں کوچہ اقتدار پر قابض ہوئے.

پھر ارزل العمر تک مسند اقتدار پر چمٹے رہنا ضروری سمجھا کہ اُن کے جانے سے سلطنت کا شیرازہ بکھر جائے گا عوام رل جائیں گے ملک ٹوٹ جائے گا قومی استحکام پرزے پرزے ہو جائے گا لیکن گردش ایام ایسے ضروری لوگوں کو مٹی کے نیچے دفن کر تے چلے گئے آپ گاؤں سے لے کر دارلحکومت تک دیکھ لیں معمولی چوہدری سے ملک کے حکمران تک کو دیکھ لیں کہ اُن کا وجود بزمِ ہستی کے لیے لازم و ملزوم ہے پھر اِس خبط کا اظہار سر عام کر تے نظر آتا ہے اِس زعم کی وجہ سے معمولی انسان اچھا انسان نہیں بن جاتا جبکہ دنیا کو دارا سکندر چنگیز خان ہٹلر کی ضرورت کسی دور میں بھی نہ تھی زمانہ تو ہمیشہ اچھے انسان کی تلاش میں رہا ہے جس سے انسانیت کی خوشبو آئے اور وہ دوسروں کو بھی انسان سمجھے خو دبھی جئے دوسروں کو بھی جینے دے اپنی عزت توقیر کے ساتھ دوسروں کو بھی عزت دینے کا ہنر جانتا ہو خود پر امن زندگی گزارے دوسروں کا امن بھی برباد نہ کر ے یہ نقطہ جس کو سمجھ آگیا وہ معاشرے کا صالح انسان بن گیا انبیاء کرام اور اولیا اللہ ہر دور میں اہل دنیا کو سمجھاتے رہے کہ غرور تکبر خاص ضروری ہونے کے خول سے نکل آؤ جلدی دنیا میں امن قائم ہو جائے گا

انصاف کا بول بالا ہو گا انسان جوانی طاقت اقتدار کے نشے میں یہ بھول جاتا ہے اُس کی کلغی ہمالیہ کو شرماتی تھی لیکن پھر موت سے ٹکرایا تو مٹی کا ڈھیر بن گیا تاریخ انسان کا دامن برے حکمرانوں آمروں سلطانوں کے تذکروں سے بھرا پڑا ہے جو خود کو دھرتی کے لیے ضروری ناگزری سمجھتے تھے لیکن آج اُن کی قبروں پر گمنامی کی سیاہ چادر پڑی ہیں آج کا انسان دولت طاقت کے نشے میں خود کو خاص ضروری سمجھتا ہے کاش اِس کو کبھی کبھی قبرستانوں کا بھی رخ کرنا چاہیے کہ یہاں جو لوگ منوں مٹی کے نیچے آسودہ خاک ہیں وہ بھی اپنے وقتوں میں اِسی طرح خود کو ضروری اور خاص سمجھتے تھے انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ جسم سانسوں سے آزاد ہو گیا اپنے وقت کے خاص لوگوں کی قبروں کے درمیان سے چلتا ہوا میں اپنے میزبان گڈو چاند کی طرف بڑھ رہا تھا جس کی والدہ پچھلے سال انتقال کر گئی تھیں جب گڈو کو پتہ چلا کے مُجھ فقیر کی جنت ماں بھی مُجھ سے روٹھ گئی ہے تو مُجھ سے افسوس کر نے آیا میں خوداپنی جنت ماں کی جدائی سے نڈھال تھا میں دیر تک اپنی ماؤں کے شفقت آمیز تذکرے کر تے رہے

وہ اپنی ماں کی اچھائیاں میں اپنی معصوم ماں کی باتیں آنسوؤں کے نذرانے کے ساتھ کرتا رہا کہ جنت مخملین مسہریوں میں لیٹے میں وہ سرور کہاں جو ماں کی گود میں حاصل ہو تا ہے کنول کا پھول بہت شفاف ہو تا ہے مگر ماں کے آئینہ دل سے بڑھ کر شفاف کیا ہو گا چاند کی چاندنی کی ٹھنڈ ک سرور آمیزہے مگر ماں کے سائے کی ٹھنڈی چھاؤں کا مقابلہ کہاں باد صبح کا خوشگوار جھونکا اپنی جگہ مگر ماں کے دامن کی ہوا کا مقابلہ کہاں خا لق کائنات نے ماں کے سینے میں اپنی رحمت اور محبت ربوبیت بھی دی ہے اِس پر خدا کا نظاراپر کر نا ہو تو ماں کو دیکھ لیں بلاشبہ دنیا کی سب سے خوبصورت حسین شے صرف اور صرف ماں ہے پھر نسل انسان کے سب سے عظیم بڑے انسان سرتاج الانبیاء محبوب خدا ﷺ نے کیا خوب کہا ہے جنت ماں کے قدموں میں ہے ماں کی ہر ادا میں خدا کا نور نظر آتا ہے گڈو چاند ڈھیر ساری باتوں کے بعد جب جانے لگا تو بولا سر میں نے اِ س بار سارا رمضان اپنی ماں کی قبر پر کرنا ہے کیا آپ کسی دن میری افطاری میں آئیں گے میں نے حیرت سے گڈو کی طرف دیکھا گڈو اُس کی ماں پیار سے اسے بلاتی تھی کبھی گڈو کبھی چاند اِس لیے میں بھی اُس کو گڈو چاند کہہ کر بلا تا ماں کے ساتھ افطاری میں نے فوراً ہاں کر دی دن مقرر کر لیا آج میں گڈو کی ماں کے ساتھ افطاری کر نے میانی صاحب قبرستان آیا تھا آخر کار ہم گڈو کے پاس پہنچ گئے جو قبرستان میں ایک چٹائی بچھائے افطاری کے لوازمات کے ساتھ سراپا انتظار تھا پندرہ بیس لوگ بھی وہاں موجود تھے

مجھے دیکھ کر گڈووالہانہ انداز میں آگے بڑھا مجھے پھولوں کے ہار دئیے اور بولا سر یہ آپ ماں جی کی قبر پر ڈال دیں میں جذباتی ہو کر ماں کے قدموں میں بیٹھ کر پھولوں کو قبر پر ڈالا دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے میری ماں بچپن سے آج تک مختلف اندازوں تصویروں میں میری یادداشت کو مہکاتی جا رہی تھیں بچپن سے آج تک مان کی محبتیں پیار خلوص بار بار یاد آرہا تھا ماں سے جدائی سمندر بن کر میری آنکھوں میں کروٹیں لے رہا تھا ہر یاد بات پیار کے ساتھ آنکھیں آبشار کی طرح ابل پڑتیں میں ماں کو بہت مِس کر رہا تھا ہر ماں کی طرح میری ماں بھی بہت عظیم خدا کا نور تھیں دعاؤں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر نے کے بعد میں چٹائی پر آگیا تو گڈو نے مہمانوں کے سامنے افطاری کا سامان رکھنا شروع کر دیا اِس دوران میری نظر تین مفلوک الحال بیمار نشئیوں پر پڑی جن کی نشہ کر کر کے حالت خراب اور کمزور تھی وہ للچائی نظروں سے افطاری کی چیزوں کو دیکھ رہے تھے گڈو نے کہا افطاری کے بعد تم لوگوں کو بھی کھانا دوں گا میں نے تینوں نشے بازوں کو پاس بلا کر چٹائی پر بٹھایا اور گڈو سے کہا اِ ن کو کھانا دو پھر گڈو کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور گلو گیر لہجے میں بولا یہ ماں کی افطاری ہے اور ماں نافرما بر دار اور نشئی بچوں سے بھی اتنا ہی پیار کر تی ہے یہ بھی ہمارے ساتھ افطاری کریں نشے بازوں کے چہرے کھل اٹھے پھر اذان فضاؤں کو روح پرور ارتعاش بخشنے لگی۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
60386