Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

زندگی جہد است و استحقاق نیست – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

Posted on
شیئر کریں:


زندگی جہد است و استحقاق نیست – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
 کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوئے۔ ان میں سے کچھ اوپر کے حصے میں پہنچ گئے، کچھ نیچے کے حصے میں۔ جو نچلے حصے میں تھے وہ پانی لینے کے لئے اوپر گئے، اوپر والوں نے انہیں یہ کہہ کر پانی لینے سے روک دیا کہ اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ نیچے والوں نے کہا بہت اچھا، ہم نیچے سوراخ کرکے پانی حاصل کرلیں گے۔ اب اگر ان نیچے والوں کو اس سے روکا نہ جائے تو ظاہر ہے کہ اوپر اور نیچے والے سب غرق ہوجائیں گے۔ اگر روک دیا تو سب بچ جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کے باہمی تعلقات کے اتار چڑھاؤ کا قریباََ یہی حال ہے، حالات بدلے تو آنکھوں میں محبت در آئی اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، دیرینہ مخالف جماعتیں ایک دوسرے کی اتحادی کیوں بن رہی ہیں یہ الگ کہانی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ ملکی سیاست میں سب سے اہم کردار چھوٹی جماعتوں کا رہا ہے۔ اس گنجلگ نظام سے کنگ میکر کی اہمیت و کردار کو کم یا ختم نہیں کیا جاسکا۔ جوں جوں صورت حال بدتر ہوتی ہے، اتحادیوں کی آنکھوں میں محبت کی جگہ نفرت اور چہرے پر مسکراہٹ کے بجائے غصہ اور تناؤ آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام اس پتلی تماشا کو اپنے نام پر کئے جانے پر دیکھتے رہتے ہیں، ان کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا اور پھر نقار خانے میں طوطی کی سنتا بھی کون ہے۔
عالمی طاقتوں کی ملکی پالیسیوں میں مداخلت کی باز گشت پرانی نہیں، اس حقیت کو تو سب تسلیم کرچکے ہیں کہ جب تک ملک کی معیشت مضبوط نہیں ہوگی ہماری خارجہ پالیسی بھی آزاد نہیں رہ سکتی۔ اس کڑوے گھونٹ کو پینا ہی ہوگا کہ ہم نے اپنی خود داری کو عالمی مالیاتی اداروں کے آگے گروی رکھا ہوا ہے۔ ریاست کو دباؤ میں لانے کے لئے کسی بھی حد تک جانا خارج ازامکان نہیں، ان لمحات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام سیاسی قوتیں ایک صفحے پر اکٹھی ہوتی اور مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جاتا، لیکن بدقسمتی سے حزب اقتدار و اختلاف کے درمیان باہمی مفاد پر مبنی تعلقات بحال ہی نہیں ہوسکے۔ ہم دیکھ چکے کہ عدم استحکام میں ان قوتوں نے ہمیشہ طوطا چشمی کا مظاہرہ کیا ہے جن کے مفادات پاکستان سے وابستہ رہے۔
ہونا تو یہ چاہے تھا کہ جن وجوہ نے ملک میں نہ صرف امن و امان کے مسئلے کو جنم دیا بلکہ معیشت کے لئے خطرات پیدا کئے، ان پر قابو پانے کے لئے فروعی مفادات کو ایک طرف رکھ دیا جاتا تو بہتر تھا۔ انا پرستی کا بت پاش پاش ہونے تک بہت نقصان ہوچکا ہے۔ سب کی مثال اس کشتی کے سی ہے جس میں سب سوار ہیں لیکن ضد و انا کی وجہ سے نفرت کے الاؤ کو اتنا بڑھا دیا کہ واپسی کے راستے بھی مسدود کردیئے ہیں۔ تعلقات کی فضا پھر سے اعتماد کی خوشبو سے مہک سکتی تھی اگر فریقین لچک کا مظاہرہ کرتے۔ حزب اقتدار ہونے کے ناطے حکمراں جماعت کو زیادہ وسیع قلبی کی ضرورت تھی اور کشاددلی کی بانہوں کو ملکی سلامتی کے لئے پھیلانے میں تامل نہیں کرنا چاہے تھا، تاہم اختلافات سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچا اور اس کے مضر اثرات سے ریاست کو طویل عرصے تک نبر آزما ہونا ہوگا۔ راقم اپنے اظہاریہ میں سیاسی جماعتوں کے قول و افعال کی پیشگوئیاں نہیں کرتا اور نہ ہی لعن و طن کرنا پسند کرتا ہوں تاہم جن حالات سے ہم سب گذر رہے ہیں اس کا حال دیکھ کر پاکستا ن کے حصوؒ ل کے مقصدیت کی فوتگی پر دل گرفتہ ضرور ہوں۔ سوچتا ہوں کہ ہم نے پاکستان، میدان کار زار میں آزادی کی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا، یہ ہمیں ایسے ہی مل گیا تھا جیسے کسی دیوانی مقدمہ میں عدالت سے مدعی کو ڈگری مل جاتی ہے۔ اس مقدمہ میں ہمارے اسلاف کی کامیابی کا راز مطالبے کی صداقت اور ہمارے قائد کی بے مثال قابلیت اور بلند پایہ دیانت اور انتھک سعی و کاوش میں مضمر تھا۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہم نے پاکستان اتنی قربانیاں دے کر حاصل کیا تو اس سے مراد یہ ہے وہ خوں ریزیاں اور تباہ کاریاں ہیں جو تقسیم ملک کے بعد عمل میں لائی گئیں۔  یہ سب کچھ پاکستان حاصل ہوجانے کے بعد وقوع میں آیا تھا، ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مقدمہ میں ہارا ہوا فریق، جیتنے والے فریق کو راستے میں گھیر کر فساد کیا کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اس وقت مملکت خداداد میں ہورہا ہے کہ ہارے ہوئے فریق شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے مخالف کو گھیر کر مارنے کے چکر میں فساد فی الارض پر عمل پیرا ہیں۔ درحقیقت ہماری سیاست کی پوری تاریخ اقتدار کے لئے ہوس ِ خون آشامی کے ساتھ، دنائیت اور جذبہ انتقام کی تسکین کے لئے فریب کاری اور روباہ بازی کی داستان ہے۔ یہ کچھ ہم ہی نہیں کہتے بلکہ جب کبھی (حسن اتفاق) سے کوئی دیانت دار اہل فکر و نظر پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اہل علم جتنا بھی نہایت محققانہ اور مورئخانہ انداز سے بساط ِ سیاست پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے اسے سمجھانے کی سعی کرتے ہیں تو ناکامی ان کا مقدر بن جاتی ہے کیونکہ ہماری روش اس منزل پر ہی نہیں جسے سمجھنے کے لئے دشواری نہ ہو۔ عدم تدبر نے ملک میں ایسی فضا پیدا کردی، جس سے دلوں پر مایوسی او ر ذہنوں پر مردنی چھا گئی۔یہاں تک تو حالات نے خود بخود کردیا بلکہ یوں کہئے کہ ہمیں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا شکر گذار ہونا چاہئے کہ انہوں نے عوام کی بہت بڑی مشکل کا حل پیدا کردیا کہ سمجھنے میں دشواری نہیں کہ کس کس نے کون کون سا نقاب اوڑھ رکھا  اور کس کا منشور رعوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے اس سے سیاسی نزاعات مٹانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی کیونکہ اس سے زیادہ اس کا مفہوم کچھ نہیں تھا کہ ہردو اس باب میں انتہا تک چلے گئے۔ملک میں عہدوں اور اختیارات کی کچھ اس طرح تقسیم ہوئی کہ جیسے بھائیوں کے درمیان جائیداد کے بٹوارے کا سوال زیر غور ہو، جائیداد بٹ جانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بھائی ایک دوسرے کا بھائی نہیں رہتا، تاہم سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ جو بھی باہمی تنازع تھا، تنازع ختم ہوجانے پر ملک وقوم کے لئے ایک ہوجائیں  ورنہ اس پر عوام سمجھتے رہیں گے کہ انہوں نے شاید کسی غلط اسٹیشن پر سوئی گھما دی ہے۔

شیئر کریں: