Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوروز –   مژدہء بہار اور مظاہرِ قدرت پر غورو فکر- تحریر: سردار علی سردارؔ اپر چترال

شیئر کریں:

نوروز –   مژدہء  بہار اور مظاہرِ قدرت پر غورو فکر

تحریر: سردار علی سردارؔ اپر چترال

نوروز کے معنی نئے دن کے ہیں۔اس دن سورج برج حمل میں داخل ہوجاتا ہے اور کرُہ ارض پر سرسبزی،شگفتگی اور شادابی کا عمل شروع  ہوتا ہے۔ اس دن روئے  زمین پر  بہار کا آغاز ہوتا ہے اور ہر ذی روح میں روئیدگی کی نئی روح نمودار ہونے لگتی ہے۔باغ و چمن میں خوشحالی  اور کوہ و دمن میں ہریالی کی نئی لہر دوڑنے لگتی ہے جسے دیکھ کر تیورِ گلشن بھی بہارِ نو کی آمد کی خوشی میں نغمہ سرا ئی میں مست ہوتے ہیں۔جیسا کہ استادِ محترم اعتمادی فدا علی ایثارؔ کا   یہ پُر حکمت شعر  مژدہء نوروز کے  لئے  کافی ہے ۔

بادِ صبا نے ہم کو دیا مژدہء نوروز

دامن میں بھر کے پھول ہے آئی پئ  نثار

ہے شاخِ گل پہ نغمہ سرا طوطی ہزار

آتا ہے گلستان میں شاید وہ گلِ غزار

آتا رہا ہے جیسے ازل سے وہ بار بار

 

کائنات کی یہ رنگین اور دل کو لبھا دینے والی خوبصورت نظاریں جیسے آسمان،زمین ،پہاڑ، دریاہ اور ندیاں حضرت انسان کو  اللہ تعالیٰ کی خلقت پر غورو فکر اور تدبرو تفکر  کرنے میں دعوت دیتی ہیں۔اس پر طُرہ یہ کہ موسموں کے تغیرو تبدل،دن اور رات کے آدلنے بدلنے میں،ہواؤں اور بادلوں کے تیز و تند اور گرج دارآوازیں جو آسمانوں میں محوِ گردش ہیں عقل والوں کے لئے بہترین نشانیاں ہیں۔

اس لئے وثوق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوروز کا یہ با برکت دن ہر عاقل مند کو  دعوت فکر دیتا ہے کہ اگر اس ظاہری عالم کے اندر موسم بہار کا آغاز ہو اور کائنات کی ہر ذی روح میں ایک خوشگوار تبدیلی واقع ہو تو انسان کے اندر بھی بہار نو کی طرح تبدیلی آنے کے آثار واضح ہوتی ہیں۔اہلِ دانش کے لئے قانونِ فطرت کی ہر چیز میں ایک  سبق  موجود ہے ۔ مثال کے طور پر اگر نباتات اپنا  پرانا لباس اتار کر نیا لباس پہنتے ہیں اور اپنے آپ کو تازہ دم اور خوبصورت رکھنے کے لئے تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن میں نیا پن اور تازگی نظر آتی ہے گویا انسان کے اندر جمود کی کیفیت ختم ہوئی اور متحرک عمل شروع ہوئی تو ایسے عمل کو نوروز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اورنوروز کے معنی نیا دن ، نئی سوچ اورعزم ِ صمیم کو دوبارہ تازہ کرنے کا نام ہے۔اس دن  کائنات کی ہر چیز میں تبدیلی رونما ہوتی ہےاور وہ شوق اور جذبے سے دل ہی دل میں انا لحق کا نعرہ لگاتی ہے۔اور دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے  کہ میں بھی دنیا میں جینے کا حق رکھتا ہوں  اور اللہ تعالیٰ میری تخلیق میں کوئی نہ کوئی مقصد ضرور رکھاہے۔ فطرت کی اس مثال سے یہ سبق ضرور لینا چاہئے کہ کائنات کے ہر ذرے کو جینے کا حق حاصل ہے۔پس انسان جو خداوند تعالیٰ کی خلقت کا ایک عظیم اور  خوبصورت شاہکار ہے  کے لئے بھی اپنے وجود کی دنیا میں آج سے ایک نئی سوچ  پیدا کرنی چاہئے ۔ذہن میں ہر آنے والے منفی تصورات  کو ختم کرکے اعتماد،  بھروسہ اور امید کو جگہ دیکر زندگی کو نئی شاہراہ پر  ایک مثبت اور تعمیری سوچ  کے ساتھ لے آنا ہی در اصل حقیقی   نوروز  سے تعبیر ہے ۔جیسا کہ پرنس کریم آغاخان نے 21 مارچ  1960 ء کو رنگوں میں اپنی جماعت سے فرمایا ” ہم چاہتے ہیں کہ اس نئے برس کے آغاز ہی سے آپ مستقبل میں تھوڑا آگے کی طرف  سوچنے کی کوشش کریں۔ ہر نوروز کے موقع پر آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا ہم نے اپنے فرائض کی ادائیگی کی ہے۔ اگر آپ ایسا کریں گےتو ہم حقیقتاََ بہت خوش ہوں گے”۔

جاننا چاہئے کہ انسانی زندگی خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ یہ اس وقت کارآمد ہوگی جب اس زندگی کو دوسرے انسانوں کی فلاح و بہبود اور مثبت کام کے لئے استعمال کیا جائے۔وہ زندگی ہی کیا ہوگی جس میں دوسرے انسانوں کی فلاح نہ ہو۔اس لئے نوروز ہر عقل مند انسان کو یہ دعوتِ فکر دیتا ہے کہ ہر سال نوروز کے موقع پر اپنی زندگی کا محاسبہ کیا جائے اور سالِ نو کے لئے انفرادی اور اجتماعی  ذمہ داریوں اور فرائض کی انجام دہی کے لئے با مقصد ارادہ کرنا چاہیئے  ۔ بالا شبہ وہ زندگی جس کے تین سو پینسٹھ دن بغیر کسی نیک عمل کے یونہی گزر جائیں تو  اہلِ بصیرت کے نزدیک زندگی نہیں پژمردگی ہے لیکن نوروز ہر جینے والے کو عزم و عمل کا درس دیتا ہے۔ سعدی شیرازی نے کیا خوبصورت شعر لکھا ہے

یارب!­­ اندر کارِ ما کن یک نظر

پیش ازان کز ما نیاید ہیچ کار

ترجمہ: اے خدا! اس سے پہلے کہ ہم سے کوئی کام نہ ہوسکے ہمارے کام پر ایک نگاہ ڈال ۔

اگر اس نوروز کو مظاہر قدرت سے جوڑ کر اس کا مطالعہ کیا جائےتو نوروز کی حقیقت اور بھی عیاں ہوجائے گی کیونکہ اسلام دینِ فطرت ہے اور کائنات اللہ تعالیٰ کا عکس ہےاور روئی زمین کے اندر ہر  مخلوق کی اپنے رب سے ایک روحانی رشتہ قائم ہے۔اسی روحانی رشتے کی وجہ سے پوری کائنات بنی نوعِ انسان میں  خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے ایک نشانی اور دین فہمی کا ذریعہ ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے  کہ اِنَ اللہ اَسَسَ دِینہُ علیَ امَثَالِ خَلقِہِ لِیُستَدلَ بِہِ عَلیٰ دیِنہ وَ بِدینہِ  عَلیَ وَحدَدییتِہِ ۔

ترجمہ: خدا نے اپنے دین کی بنیاد اپنے خلقت کی مثال پر رکھی ہےتاکہ اس کی خلقت کے زریعے اس کے دین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

اس حدیثِ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ مظاہر ِ قدرت کی یہ تمام نشانیاں خلاقِ کائنات کی معرفت  کے زرائع  ہیں اور عقل والوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں۔مظاہر قدرت عقل مند انسان کو خود شناسی کی ترغیب دلاتی ہیں تاکہ انسان قانونِ فطرت سے سبق لیتے ہوئے اپنے وجود کی معرفت حاصل کریں۔ اپنے وجود کو پہچانیں کیونکہ انسان بظاہر تو  ایک جسم ہے لیکن درحقیقت وہ اپنے اندر ایک پوری کائنات رکھتا ہےجیسا کہ علی کرم اللہ وجہہ کا فرمانِ مبارک ہے۔

وَتحَسَبُ اَنَکَ جِرمُ صَغیرُُ

وَفِیکَ اَنطوَ العَالَمُ الاَکبر

وَ انَتَ الکِتَابُ المُبَین الذی

باِخرُفیہِ یظَہَرُ المُظمرَ

ترجمہ: کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے حالانکہ تمہارے اندر ایک پوری کائنات بسی ہوئی ہے اور تو وہ ظاہری کتاب ہے جس کے حروف سے حقیقت کے مخفی راز کھل جاتے ہیں۔

مولا علیؑ کے اس پرحکمت فرمان سے یہ واضح ہے کہ عام طور پر کسی بھی کتاب کو پڑھنے کے لئے اس کے ہر حروف پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہوگی ورنہ کتاب کا سرسری مطالعہ بے مقصد رہیگا  اور اس کے  مطالب و معانی کی تہ تک پہنچنا  ممکن نہیں ہوگا ۔ لیکن کتاب ِ کائنات کا مطالعہ کرنے کے لئے اور بھی غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ہر ابواب کو عمیق نظر سے دیکھ کر اس کے مخفی حقائق کی گہرائی کا ادراک  کرنا ہی معرفت کے حصول کا زریعہ ہیں۔ غورو فکر نہ کرنے کی صور ت میں اس کے تمام ابواب انسانی نظروں سے اوجھل رہیں گی جیساکہ پرنس کریم آغا خان نے نومبر 1985 ء کو آغا خان یونیورسٹی کے افتتاحی تقریب کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا۔” وہ مومن جو ذہنی جستجو کرنے میں ناکام رہتا ہے وہ تخلیقِ خدا کی انتہائی محدود سمجھ حاصل کرسکے گا۔یہ دراصل انسانی ذہن رہی ہے جو تخلیق خدا کے بارے میں انسانی نظر کو وسعت دیتا ہے”

حقیقی نوروز تو یہ ہے کہ مظاہر قدرت کی ان زندہ مثالوں سے معرفتِ حق کے لئے جستجو ہو ں اور اپنے ارد گرد کے مظاہرِ قدر ت کے نظاروں سے کوئی نہ کوئی سبق ہو تاکہ خدا اور مخلوق کے درمیان رابطہ قائم ہو۔ جس کا عملی اظہار خدا کے مخلوق کے ساتھ محبت ، رواداری، حسنِ سلوک اور احترامِ انسانیت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کے اندر خوشی اور شکر گزاری کا احساس ہو۔

اس ظاہری عالم میں بہار کا عمل شروع ہو  ، زمین کے ہر زرے میں حرکات و سکنات کی لہر دوڑنے لگے لیکن ایک مومن کے وجود میں پھر بھی خزن و زمستان کے آثار باقی ہو تو ایسی صورت میں نوروز کی حقیقت بے معنی رہے گی۔ کوشش ، سعی و عمل ہی انسانی زندگی میں بقا کا درس دیتے ہیں جس سے ہی ہر ذی عقل انسان جینے کا مزہ  اٹھاتا ہے۔ آج کرہء ارض پر دن اور رات برابر ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بھی اپنی روحانی اور جسمانی دنیا کے درمیان توازن برقرار رکھنا چاہیئے۔ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی اُخروی دنیا کو نظر انداز کرکے مادی دنیا کے پیچھے بھاگنا شروع کردیں۔

نوروزِ حقیقی ہر دانش مند انسان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ آج کے دن اپنی کوتاہیوں کو چھوڑ کر سعی عمل کے لئے کوشان رہیں۔ اپنی برائیوں کو اچھائیوں میں بدل دیں، دشمنی کو دوستی میں، تکبر اور غرور کو عاجزی میں بدل کر معاشرے میں ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کی جائیں۔ آج کا یہ خوبصورت دن ہمیں دعوت دیتا ہے  کہ ہم اپنے گزشتہ ماہ و سال کا ایک دفعہ  جائزہ لیں۔  اگر ہم سے دینی فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے یا ہم سے کوئی  بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کی جائے۔ اپنے گفتار،کردار  اور قول و فعل میں یگانہ ہوکر  آئندہ آنے والی حسین لمحات کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لئے پختہ ارادہ کیا جائے تاکہ ہماری زندگی کےگلشن میں ظاہری نوروز  کی آمد کے ساتھ ساتھ باطنی نوروز کی خوبصورتی بھی عیاں ہوجائے۔

 

بقولِ شاعر:

گفتار میں کردار میں ہوجائیں یگانہ

تادرسِ عمل تم سے ہی لے اہلِ زمانہ

 


شیئر کریں: