Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جنگل کا قانون – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

Posted on
شیئر کریں:


جنگل کا قانون  ………….   قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

 
آج کی عالمی صورت حال میں جہاں امن عالم کو شدید خطرات لاحق ہیں، انسانیت امن کے لئے سسک رہی ہے وہاں ملک کو درپیش حالات کو بغور دیکھنے کی ضرورت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کوشش ہونی چاہیے کہ  جلد سے جلد سیاسی افراتفری کے ماحول کی حدت کو کم کرنے کے لئے مستحسن اقدام کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ غیر یقینی صورت حال، تنوع رجحانات اور مختلف طبقات کے مابین پیدا شدہ غلط فہمیوں اور تحفظات کا کماحقہ ازالہ ہوسکے بلکہ مملکت کے خلاف جو مذموم الزامات لگائے جاتے ہیں اسے بھی مٹانے کے لئے تمام سیاسی سٹیک ہولڈر، مذہبی اور لسانی اکائیوں کو حاصل حقوق و آئینی و قانون تحفظ کی جتنی ضمانتیں مہیا ہیں ان کے بارے میں اطلاعات و معلومات کی پاکستانی سفارت خانوں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مناسب تشہیر ہونی چاہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشرہ میں بعض ایسے افراد ہوسکتے ہیں جو ”نفسیاتی مریض“ ہوں اور ان کا ”پاگل اور باؤلا پن“ افرادِ معاشرہ سے امن و اطمینان کا احسا س چھین لے، ایسے مریضوں کا علاج ضروری ہے اور جب تک وہ پورے طرح شفایاب نہ ہوں افراد ِ معاشرہ کو ان کے جنون کے پیدا کردہ خطرات سے محفوظ رکھنا ریاست کی اولین ذمے داری ہے کیونکہ از بس لازمی ہے کہ علاج سے اکثر و بیشتر مریضوں کی قلبی اور ذہنی اصلاح ہوجاتی ہے لیکن بعض اوقات اس کے لئے بطور آخری اقدام تخویف و ترہیب کی بھی ضرورت پیش آتی ہے، کئی نفسیاتی امراض ایسے ہیں جن کا علاج خوف کی احساس دہی سے کیا جاتا ہے۔
طاقت و قوت میں فرق کو سمجھنا ہوگا، یہ حیوانی جبلت ہے کہ زندہ وہی رہ سکتا ہے جو سب سے زیادہ قوت حاصل کرلے، جو دوسروں کے مقابلے میں کمزور ہوجائے، اسے زندہ رہنے اور اپنے حقوق مانگنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ یہ نشہ ہے طاقت کا خمار، فطرت سے بغاوت اعلان اور انسانی حیات سے انحراف کہ سب سے زیادہ قوت رکھنے والے کسی کو بھی ہڑپ کرسکتے ہیں۔ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل لیتی ہے، چڑیا، کیڑوں مکوڑوں کو نوچ لیتی ہے اور عقاب، چڑیا کو دبوچ لیتا ہے، بلی چوہے کو کھا جاتی ہے، کتا، بلی کو جھپٹ لیتا ہے، بھیڑیا، کتے کا گلا پکڑ لیتا ہے اور عند الضرورت، شیر، بھیڑئیے (اور جنگل کے ہر جانور کا) کا خون پی لیتا ہے، اسے ”جنگل کا قانون“ کہا جاتا ہے اور جنگل میں ایسا کرنے کو نہ معیوب سمجھا جاتا ہے نہ مذموم۔ اس قانون کی رُو سے اسے تسلیم کرلیا جاتا ہے کہ کمزور کا وجود ہی اس لئے ہے کہ وہ طاقت ور کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بنے، کمزور اُس وقت تک زندہ رہ سکتا ہے جب تک طاقت ور کو اس کی ضرورت نہ پڑے۔ جس وقت طاقت ور ضرورت محسوس کرے، وہ کمزور کو ہڑپ کرسکتا ہے، یہی ہوتا چلا آیا ہے، یہی کچھ ہورہا ہے، یہی ہوتا رہے گا، نہ بھیڑوں کو ہزار آرزؤں شیر کو خوئے درندگی سے عاری کرسکتی ہیں، نہ بکریوں کے لاکھ  ریزولیویشن بھیڑیوں کی تیزی دنداں کو کند کرسکتے ہیں۔ یہ نظریہ حیوانی ہی ہے کہ طاقت ور کے سامنے، اس کے خلاف آواز اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔ اگر وہ آواز اٹھائے بھی تو اسے وہ چیخ سمجھنا چایئے جو مرغی کے حلق سے اس وقت (بے اختیار) نکلتی ہے جب بلی دبوچ لے جاتی ہے، اگر بلی، اس کی اس چیخ سے متاثر ہو کر اسے چھوڑ دیتی ہے، تو یہ اس کی حماقت ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ بھوکوں مرے گی، اگر وہ مرغی کہیں مرافعہ (اپیل) بھی کرے تو بلیوں کی کوئی عدالت اس کے حق میں فیصلہ نہیں دے گی۔
”جنگل کے اس قانون“ کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرکے، انسانی دنیا میں نافذ کردیا گیا، حیوانوں کی دنیا میں یہ صورت تھی کہ وہ مختلف انواع میں بٹے ہوئے تھے، جن میں ایک نوع دوسری نوع سے زیادہ طاقت ور تھی اور طاقت ور نوع کمزور نوع کو کھاتی تھی، اس میں (بجز شاذ حالات کے) ایک نوع کے افراد، آپس میں ایک دوسرے کو کھانے نہیں لگ جاتے تھے، بلیاں چوہوں کو تو کھاتی تھیں، لیکن چوہے ایک دوسرے کو نہیں کھاتے تھے۔ انسان سب ایک نوع سے متعلق تھے، اس لئے ”جنگل کے اس قانون‘ کے مطابق بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ اس ایک نوع کے افراد، ایک دوسرے کو کھانے لگ جاتے۔اس دقت کو رفع کرنے کے لئے، نوع انسانی کو مختلف اقوام میں تقسیم کردیا گیا اور ہر قوم کو ایک جداگانہ نوع تصور کر لیا گیا۔ اس کے بعد صورت یہ ہوگئی کہ جس قوم نے زیادہ قوت فراہم کرلی، اسے حق حاصل ہوگیا کہ وہ اپنے سے کمزور قوموں کو ہڑپ کرجائے، اس طرح ”جنگل کے قانون“ کا انسانی دنیا میں عام چلن ہوگیا۔ اس وقت یہی قانون ساری دنیا میں رائج ہے۔
پاکستان میں جنگل کا قانون نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ سر زمین اس قانون کے نفاذ کے لئے حاصل نہیں کی گئی تھی، مسلح گروہ بندیاں، الم ناک سانحوں اور پیدا شدہ انارکی کے پیش نظر ایسے عناصر جو کھلم کھلا ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہوں اور تباہی کا الٹی میٹم دے رہے ہیں، ان پر قابوپانے کے لئے پرانے طریقے اپنانے سے گریز ہونا ہوگا۔ سیاسی عدم استحکام کی جس تباہ کن نہج سے گذر رہے ہیں، اسے پل صراط سمجھنا ہوگا۔ داخلی معاملات کا تمام حل ایوانوں میں موجود ہے۔ خارجی تعلقات کامعاملہ مربوط و مستحکم پالیسیوں سے جڑا ہے۔ تجربات نے ملکی اساس کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔اس وقت حالت یہ ہے کہ ساری دنیا ایک وسیع و عریض جنگل بن چکی ہے جس میں بعض قوموں نے (کسی نہ کسی طرح قوت فراہم کرکے) شیروں کی شکل اختیار کر رکھی ہے۔ اس سے دوسرے درجے پر بعض قومیں بھیڑیوں کی سطح پر ہیں اور باقی تمام اقوم ِ عالم بھیڑوں اور بکریوں کی طرح ان کے رحم و کرم پر زندگی کے دن پورے کررہی ہیں، ان شیروں اور بھیڑیوں کا جب جی چاہے کسی بھیڑ یا بکری کو دبوچ لیتے ہیں وہ بے چاری ممیاتی ہوئی دم توڑ دیتی ہے اور باقی ڈری اور سہمی ہوئی جھاڑیوں میں دبک کر بیٹھ جاتی اور اپنی باری کا انتظار کرتی رہتی ہیں، ”جنگل کے ان بادشاہوں“ سے کوئی پوچھنے کی جرات نہیں کرسکتا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو۔

شیئر کریں: