Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دیر اور چترال پڑوسی ہیں لیکن۔؟ ۔ تحریر: پروفیسر رحمت کریم بیگ

Posted on
شیئر کریں:

دیر اور چترال پڑوسی ہیں لیکن۔؟ ۔ تحریر: پروفیسر رحمت کریم بیگ

دیر اور چترالی کی ہمسائیگی صدیوں پر محیط ہے اس میں بہت سارے تاریخی واقعات رونما ہوئے اور دوستیاں بھی ہوئیں، رشتے قائم کئے گئے اس سب کے باوجود اور اتنی زمینی قربت کے باوجود دونوں کی معاشی اور سماجی حالات میں اس وقت بے اندازہ فرق محسوس ہوتا ہے۔چونکہ چترال کا واحد راستہ دیر کے طول و عرض سے گذرتا ہے اس لئے آس پاس جو ترقیاتی تبدیلی نظر آتی ہے اس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

ٓ اس وقت دیر کے بھی دو ضلعے ہیں اور چترال کو بھی دو میں تقسیم کیا گیا ہے مگر دیر کے لوگ ترقی اور خوشحالی کے کس بلندی پر ہیں اور چترال والے کتنے پسماندہ ہیں مجھے کل کے سفر میں اس کا مشاہدہ کرنے اورجائزہ لینے کا موقع ملا۔ دیر کے لوگ محنتی اور انتہائی جفاکش ہیں کوئی بندہ بیکار نظر نہیں اتا، ہموار زمین چونکہ کم ہے اس لئے ان لوگوں نے کاروبار کی طرف خوب توجہ دی اور مقابلہ کا رجحان پیدا ہوا اور اس وقت دیر کی ایک بڑی آبادی ارب پتی ہے، کھرب پتی بھی ضرور ہوں گے، کروڑ پتی تو کسی زمرے میں ہے ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں چترال والے چند کروڑ پتی ہوسکتے ہیں وہ بھی گنتی کے چند۔۔ باقی ساری آبادی بہت غربت کی زندگی گذار رہی ہے، وسائل چترال میں بھی کافی ہیں لیکن ان سے فائدہ اٹھانے کی کسی میں ہمت نہیں، دماغ کاروباری نہیں اور یہ کہ کام سے یہ لوگ بھاگتے ہیں۔

دیر والے سارے پٹھان ہیں اور ہر پٹھان نسوار کی حد تک نشہ کرتا ہے اس سے آگے نہیں جاتا، چترال میں بھی نسوار ڈالنے کی عادت ہے مگر اس کے ساتھ چرس، ٹارا، افیون، انگور کا پانی اور نہ جانے کیا کیا بلائیں بھی زیر استعمال ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بس نام کو ہیں۔ چترال کے تمام دیہات میں چرس باسانی مل جاتی ہے اور یہاں لانے والے کون ہیں ان کی نشاندہی کی ضرورت نہیں۔ چترالی کاہل، سست اور بیکار قسم کی مخلوق ہے، کھیت میں کام کرنے سے کتراتا ہے اس کو کسر شان سمجھتا ہے، مزدوری کرتا ہے مگر کام چور ہے اس لئے اس کی معاشی حالت کے بہتر ہونے کے امکانات مستقبل قریب میں کم ہیں اور یہ زمین بیچنے اور اس رقم کو گاڑی خریدنے میں لگاتا ہے اور دو تین سال کے اندر یہ گاڑی کباڑ میں بک جاتی ہے، اس کے مقابلے میں دیر کا آدمی پیسے کو جوڑ جوڑ کر سنبھالتا ہے ان میں بچت کی عادت بدرجہء آتم موجود ہے وہ کسی بھی صورت اپنا پیسہ فضول کام میں نہیں لگاتا اس کو سختی سے سنبھال کر رکھتا ہے ہزار سے لاکھ، لاکھ سے کروڑ، کروڑ سے ارب اور ارب سے کھرب تک لیجانے کی نشہ کا شوقین ہے ایسی قوم کیوں ترقی نہ کرے

اس کے مقابلے میں جب ایک چترالی کاروبار شروع کرتاہے پہلے سال نصف سرمایہ قرض میں جاتی ہے دوسرے سال باقی بھی اور وہ دکان بند کرکے گھر بیٹھ جاتا
ہے۔ چترالیوں کو دیر والوں کو دیکھ کر بچت کی عادت اپنانی چاہئے ورنہ ان کا مستقبل تاریک ہے، چترالی میں اس وقت ایک بات اچھی ہے کہ یہاں تعلیم کی طرف خوب توجہ دی جارہی ہے شاید اس کی بدولت وہ ترقی کے دوڑ کے اس سلسلے میں کسی حد تک اپنی بقا کو مستحکم بنا سکتے ہیں

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
59089