Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دُختر کشی – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

شیئر کریں:

دُختر کشی – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

اولاد نرینہ کی خواہش انسان کی نفسانی کمزوری ہے۔ حقیقی معنوں میں ایسے بہت کم لوگ ہوں گے، جنہیں اولاد نرینہ کی آرزو نہ ہو۔ ایک دل خراش واقعے نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پشاور میں ایک جعلی پیر نے اولاد نرینہ کی آرزو مند خاتون کے سر میں مبینہ طور پرکیل ٹھونک دی تاکہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے۔تفصیلات کے مطابق لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور (ایل آر ایچ) میں خاتون مریضہ آئی جس کے سر میں ایک پیر نے کیل ٹھونک دی تھی۔وجہ پوچھنے پر خاتون مریضہ نے بتایا کہ ان کی نرینہ اولاد نہیں ہو رہی تھی جس وجہ سے وہ ایک پیر کے پاس گئی جن کے پاس اولاد نرینہ کی آرزو مند بہت ساری خواتین جاتی ہیں۔ خاتون مریضہ کا کہنا تھا کہ پیر نے انہیں کیل کا بتایا اور کہا کہ سر میں کیل ٹھوکنے سے اس کی نرینہ اولاد پیدا ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کیل کے لیے راضی ہو گئی تاکہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے۔ 

دوسری جانب خاتون کے شوہرنے بیان دیا کہ یہ نفسیاری مریضہ ہے، سر میں کیل جنات نے ٹھونکی ۔دختر کشی کی ان گنت مثالیں تاریخ انسانی میں ملیں گی۔ اگر دیکھا جائے کہ کیا لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دینا خود کو ذلت اور رسوائی سے بچانا مقصود تھا تو پھر ایسے معاشرے میں اتنی کثرت سے بیویاں کہاں سے آجاتی تھی کہ ایک مرد کے گھر میں دس دس بارہ بارہ بیویاں ہوتی تھی۔ بامعنی دیگر لڑکی کا پیدا ہونا اور اسے زندہ درگور کرنے سے مراد میں فکر اور اخلاقی طور پر مار ڈالنا بھی تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کو وہ حقوق اور آزادی ہی نہ ملے جو اس کا بنیادی اور انسانی حق ہے۔ دختر کشی کے جرم کا ارتکاب کرنے والے فقر و فاقہ کے اندیشے کی وجہ سے اولاد نرینہ کی زیادہ خواہش رکھتے ہیں۔ قرآن کریم میں رب کائنات نے واضح طور پر فرمایا کہ ’اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے۔‘

 پشاور میں رونما ہونے والا  دل سوزواقعہ اولا نرینہ کی خواہش میں کی جانے والی شدت پسندی کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ چشم فلک روز ایسے تماشے دیکھتا ہے کہ اولاد کی پیدائش یا بیٹے کی خواہش کے لئے حد سے بھی بڑھ کر وہ کچھ کرلیا اور کرایا جاتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے معاشرے میں دختر کشی کی مختلف صورتیں، قبیح مثالوں میں ملتی ہیں۔ فکری، نظری اور اخلاقی طور پر بھی لڑکیوں کو مارڈالا جاتا ہے۔ اس طرح بچیوں کو مار ڈالنا بھی کوئی کم جرم نہیں، اس سے پوری انسانیت تباہ ہوجاتی ہے، معاشرے میں چند بچے ایسے پیدا ہوجائیں کہ وہ پورے معاشرے کے لئے وبال جان بھی بن جاتے ہیں۔

پوری نئی پود،ان کے اعمال سے متاثر ہوتی ہے۔ اولاد میں جنس کی تخصیص کے بغیر صحیح تربیت دینا والدین کا فرض ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کتنی ہی صحیح تربیت دیں لیکن محلہ میں چند شریر او ر بد اخلاق بچے بھی موجود ہیں  تو آپ کی صحیح تربیت آپ کے بچوں پر وہ اثر نہیں کرسکے گی جو محلہ کے ان چند بچوں کے اثرات کام کرجائیں گے۔ یہ انفرادی جرم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اجتماعی جرم بن جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پلٹتا ہے، خربوزوں کے متعلق یہ بات صحیح ہو یا نہ ہو مگر بچوں کے متعلق یہ احوال حرف بحرف صحیح ہے۔ اس لئے یہ سوچ لینا کہ صرف لڑکی ذلت و رسوائی کا سبب بن سکتی ہے تو اسے زمانہ جاہلیت کی فرسودہ سوچ ہی کہا جاسکتا ہے۔ درحقیقت اولاد کی درست تربیت نہیں کرپاتے تو اتنا ہی نہیں کہ آپ اپنے بچوں کی زندگی خراب کرتے ہیں بلکہ بالواسطہ پورے معاشرے کے بچوں کی زندگیاں تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ دختر کشی کی مذموم سوچ کے سہارے نام نہاد زندگی گزارنے والے دراصل جھوٹے نفس کے غلام اور من گھڑت دلیلوں کے سہارے جیتے ہیں۔اللہ تعالی نے اولاد کو اپنی نعمت، رحمت اور حیات دنیوی کی زینت قرار دیا ہے، اولاد میں لڑکے بھی شامل ہیں اور لڑکیاں بھی۔ ؒ

لڑکے پیدا ہونے پر خوشی منانا اور لڑکی پیدا ہونے پر سوگ من جانا یہ وہ جاہلیت ہے جس کا اسلام سے ہی بلکہ انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ جاہلانہ تعلیمات اور رسم و رواج کا وہ ناسور ہے، جس میں خود عورت کو اپنے عورت ہونے کا دکھ اٹھانا پڑتا ہے، ایک عورت خود ایک عورت پر اولاد نرینہ کے لئے دباؤ ڈالتی ہے تو لڑکیوں کی پیدائش پر زندگی کو اجیرن کردیتی ہے۔ معاشرے میں سمجھانے کے لئے آگاہی اور شعور پیدا کرنا سب کا فرض ہے کہ عورت اور مرد دونوں اپنی اپنی جگہ ہی اپنی اہمیت رکھتے ہیں، زندگی کی گاڑی نہ مرد تنہا کھینچ سکتا ہے،نہ عورت۔ زندگی کے تقاضے کچھ اس قسم کے ہیں کہ نہ تنہا مرد ان کو پورا کرسکتا ہے نہ تنہا عورت انہیں پورا کرسکتی ہے۔

یہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔جدید سائنس اب اس گتھی کو سلجھا اور انسانوں کو سمجھا چکی کہ وہ کیا قانون فطرت ہے کہ کسی کو لڑکے ہی لڑکے ملتے ہیں اور کسی کو لڑکیاں ہی لڑکیاں ملتی ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے ہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ہاں نہ لڑکے پیدا ہوتے ہیں اور نہ لڑکیاں ہوتی ہیں۔اس میں کچھ انسان کی اپنی ہنر مندی کا کوئی دخل نہیں، اس لئے اگر کسی کے ہاں لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوتے ہیں تو اس پر اسے گھمنڈ کرنے کا کوئی حق نہیں، اگر کسی کے ہاں لڑکیاں ہی لڑلیا ں پیدا ہوتی ہیں تو اسے قطعاََ کبیدہ خاطر ہونے کی شرم اور عار محسوس کرنے کی ضرورت نہیں، اگر کسی کے ہاں اولاد ہی نہیں تو اس میں بھی شرمانے یا رنجیدہ رہنے کی کوئی بات نہیں، دکھ تکلیف کی اصل کیفیت تب ہوتی ہے کہ کسی کی دختر اپنے کوکھ سے پیدا ہونے والی اولاد میں حمل کے دوران سر میں کیل ٹھونک کر اولاد نرینہ کی خواہش میں حد سے بڑھ یا مجبور ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیں اور سمجھنا چاہے کہ نہ لڑکے کچھ زیادہ فضلیت کے مالک ہوتے ہیں اور نہ لڑکیاں کچھ کوتاہ دست ہوتی ہیں، کتنے سنگ دل اور شقی طلب بہروپہئے اور بد بخت لوگ ہوتے ہیں جو ماں باپ کو، جو محض ایک رسمی عار سے بچانے کے لئے ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
58281