Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کشمیر کی آزادی، بھارت کی ہٹ دھرمی – کریم علی غذری

شیئر کریں:

آزادی ایک لازوال نعمت ہے۔ جب اللہ رب الکرہم اپنے بندے پر خاص نعمتوں کا کرم کرتا ہے تو آزادی جیسی علیشان نعمت سے اس کو نوازتا ہے۔
اگر کسی قوم کو آزادی ورثے میں میسر آتی ہے وہ اس کی قدرومنزلت کو کبھی نہیں جانچ سکتا۔ اقوام عالم میں دنیا کے نقشے پر اس وقت ایسے مملک بھی شامل ہیں جو حصول آزادی کے لیے دن رات جدوجہد کررہے ہیں، یا ان پر کسی دوسرے ملک کا قانون مسلط ہے یہ ممالک مذہبی، نسلی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے لیے علیٰحدگی کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔


ان ممالک میں اکثریتی جماعت اور اقلیتی جماعت کے درمیان تنازعے اور فسادات یا اپنے حقوق کے حصول کی جنگ رہتی ہیں۔
جب حکومت اپنے رعایا کو بنیادی حقوق اور سہولیات مہیا کرنے میں ناکام ہوجائے، جب کوئی بھی ملک یا خطہ دہشتگردوں کی گرفت میں آجائے اور وہ اپنا قانون ان پر زبردستی مسلط کریں، جب کسی مخصوص خطے یا علاقے کی خصوصی حیثیت کو تبدیل یا منسوخ کی جائے، جب کسی بھی قوم کو اپنی عقیدے یا نظریے کے مطابق زندگی گزارنے سے روکا جائے تو خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔


ان ممالک میں ازربائیجان، چین کے کچھ مخصوص حصے، جورجیا، انڈونیشیا، فلسطین، پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔
اگر اپ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کس طرح ان ممالک میں شامل ہے کیونکہ ہم وطن عزیز میں آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں یہ بات درست ہے کہ ہم جغرافیائی طور پر دنیا کے نقشے پر ایک ازاد ریاست میں زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن پاکستان کے اندر کچھ ایسے خطے علاقے اب بھی موجود ہیں جو سات دہائیوں سے آزادی کے خواب آنکھوں میں جمائے ھوئے ہیں۔ جو 74 سال سے اپنی حقوق اور شناخت کی جنگ لڑرہے ہیں۔
جن کی سیاحت، قدرتی خوبصورتی، انکم جنریٹ کرنے میں کوئی ثانی نہیں لیکن ملک کے وسائل اور دیگر معاملات میں ان کو ہمیشہ نظراندز کیا جارہا ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں اندرونی تحریکیں جنم لیتی ہیں اور ملک انتشار کی دیلیز پر پہنچ جاتا ہے۔ جس طرح بلوچستان کے گوشے گوشے سے علیحدہ بلوچستان کے صدائے بلند ہوتی ہیں جو اصل میں احساسِ محرومی اور بنیادی حقوق اور فقدان کی وجہ سے ہیں۔ اور بی-ایل-پی
بی-ایل-اے جیسی تنظیمں جنم لیتی ہیں جو نوجوان نسل کو ملک مخالف سرگرمیوں میں الجھا لیتی ہیں جس سے لسانی، سماجی، اور جغرافیائی تفرقات پروان چھڑتے ہیں۔


وطن عزیز سے منسلک ایک ایسا خطہ جو دنیا میں قدرتی حسن وجمال کی دولت سے مالامال ہے، سات دہائیوں سے آزادی اور حقِ خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہی ہے یہ خطہ جس طرح بیرونی دنیا کے لیے جنت کی مانند ہے مگر وہاں کے باشندوں کے لیے کسی ایسا کچھ نہیں یہ خطہ وادی کشمیر ہے۔
یہاں پر جس طرح ندیاں اور چشمے بہتے ہیں اسی طرح بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کا لہو بھی بہایا جاتا ہے۔
ہولی ہو یا عید، دیوالی ہو یا کرسمس یہ سب تہواریں ان پر قہر بن کر پڑتے ہیں۔ نام نہاد اور دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارتی حکومت 74 سال سے ان پر جبر اور ستم کے پہاڑ ڈھائے ہوئے ہیں۔ سرچ اپریشن، چاردیواری کی تقدس کی پامالی، اور جعلی انکونٹر سرینگر، پلوامہ، کلگام میں معمول کا کھیل بن گیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود انصاف کے تخت و تاج پر براجمان منصفین اور اقوام عالم کے بڑے علمبردار ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔


21 اپریل 1948 کو یونائٹیڈ نیشن نے ایک قراداد پاس کیا جو کشمیر میں تنازعے کی چنگاری کو کم کرنے کی غرض سے جاری ہوا تھا۔ جس میں پاکستان اور بھارت کے دلائل سننے کے بعد ایک کمشن تشکیل دی گئی اور قراداد 39 کے ممبران کے دائرہ کار کو وسیع کیا گیا اور برصغیر میں جاکر پاکستان بھارت کے تنازیات کو ختم کیا جانا تھا۔ اس کمیشن نے مسلے کے حل کی خاطر تین تجاویز زیر غور لایا؛
1۔ پاکستان ان تمام متحرک تنظیموں کو کشمیر سے بیدخل کرے جو جنگ کے ماحول کو پروان چڑھاتے ہیں۔
2- بھارت اپنی موجودہ فوج کی تعداد کو اس حد تک کم کریں کہ کشمیر میں امن اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھا جاسکے۔
3- یو-این کا مقررہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی سلف ڈٹرمینشن کے لیے ایک صاف اور غیر جانبدار نظام کا انتظام کرسکے۔
دونوں ممالک نے برصغیر کی آزادی کی طرح اپنے تحفظات اور اعتراضات واضح کردیے کیونکہ ان سب پیش کش میں کہیں نا کہیں خسارہ بھی موجود تھا۔
لیکن یو-این کی ثالثی پیشکش کو سراہا گیا اسی طرح 1949 میں سیز فائر معاہدہ طے پایا گیا۔ اس کے بعد دو اور قراداد جاری ہوئے لیکن کوئی خاطرخواہ نتائج برامد نہ ہوسکا۔


یو- این آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ خود وہاں کے باشندے کریں گے جسے سلف ڈٹرمینشن کہا جاتا ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اس میں برقرار رہی۔ 25 لاکھ کی آبادی پر 9 لاکھ کی بڑی تعداد میں فوج کو مسلط کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت ہر صورت کشمیریوں کے منہ سے نکلنے والی آزادی کی آواز کو دبانا چاہتا ہے۔ لیکن 74 سال کی طویل جبروبربریت کے باوجود وہ جذبہ خودارادیت کی آواز کو نہ دباسکا بلکہ یہ تحریک آئے روز مضبوط اور توانا ہوتی جارہی ہے۔


جب بھارت کے یہ سارے ہتھکنڈے بیسود ثابت ہوئے تو انڈین آئین سے ارٹیکل 35A اور 70 کو ختم کیا جو کشمیر کو خصوصی حیثیت اور نوآبادیاتی نظام کو روکنے کے لیے تھا۔ جس کی منسوخی کی وجہ سے کشمیر کی خصوصی حیثیت مجروح ہوئی ہے اور آبادیاتی تبدیلی کی نئی لہر کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھی ہے۔


آزادی کا یہ ناتھمنے والا ولولہ انگیز سفر پورے زور سے جاری ہے۔ ظالم چاہے جتنا بھی طاقتور ہو وہ حق کی آواز کو کبھی نہیں دباسکتی۔ انشااللہ کشمیر میں آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا۔ اور جموں وکشمیر سمیت گلگت بلتستان کے محروم باشندوں کو بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کا حصول ممکن ہوسکے گا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
58035