Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیازمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں – تحریر: ثمر خان ثمر

شیئر کریں:

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہر ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے جو چیزیں اہمیت رکھتی ہیں وہ یہاں میسر ہیں۔ بحربیکراں، وسیع و عریض میدان، سرسبز وشاداب جنگلات اور تاحدنگاہ پھیلے ہوئے ریگستان۔ ایسی کون سی نعمت ہے جو ہمارے ملک میں دستیاب نہیں ہے۔ جہاں قدرت نے ہمیں نوازنے میں بخل سے کام نہیں لیا وہیں ناسپاسی کا مظاہرہ کرنے میں بھی ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم انتہائی ناشکرے لوگ ہیں۔ سوہنی دھرتی(پاکستان) کو اگر ایک حسین وجمیل دوشیزہ سے تشبیہ دیں تو گلگت بلتستان اس کے ماتھے کا جھومر ہے۔ گلگت بلتستان اپنے بلند وبالا پہاڑوں، منہ زور ندی نالوں، دریائے سندھ کے نیلگوں پانیوں، پہاڑوں کے سینے چیر کر اُبلنے والے صاف و شفاف پانی کے چشموں، سرسبز وشاداب چراگاہوں، نایاب درختوں پر مشتمل جنگلوں، بلندیوں سے گرتے آبشاروں ، گہری گہری جھیلوں، پھلدار درختوں اور آثار قدیمہ کے لیے دنیا بھر میں اپنی شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔


 جس گلگت بلتستان کو آپ نے آج دیکھا ہے، چین، برطانیہ وغیرہ نے برسوں قبل دیکھا تھا۔ اس کی اہمیت و افادیت جتنی غیروں کی نظر میں ہے، بدقسمتی سے ہمارے اندر نہیں ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی “K2” آپ کے پاس ہے، تین عظیم پہاڑی سلسلے آپ سے ہو کر گزرتے ہیں۔ دنیا کی بلندترین اور وسیع وعریض چراگاہ “دیوسائی” آپ کے پاس ہے۔ ننگا پربت، فیرومیڈو، بابوسر ٹاپ، ہنزہ، اسکردو، استور، غذر، داریل، تانگیر ۔۔۔کیا کیا نہیں ہے اس خطہ جنت نظیر میں؟ جتنا کچھ منظر عام پہ آگیا ہے اتنا ابھی نظروں سے اوجھل بھی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت میسر آتے ہی گلگت بلتستان کی شہرت کو گویا پر لگ گیے۔ میں اس تحریر کے توسط سے نوجوانان گلگت بلتستان سے مخاطب ہوں۔ کچھ باتیں عرض کرنا مقصود ہے، ممکن ہے میری باتیں ناگوار بھی گزریں لیکن سچ سچ ہی ہوتا ہے جو اکثر کڑوا ہوتا ہے۔


انتہائی دکھ درد اور عالم کرب میں کہنا پڑتا ہے کہ رفتہ رفتہ باشندگان شمال اپنی تہذیب و ثقافت کھو رہے ہیں۔ ہماری صدیوں پر محیط شاندار ثقافت ایک عدد “ڈھول” میں سمٹ رہی ہے۔ ڈھول باجا اور رقص و سرود ہماری ثقافت ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ کچھ لوگ زبردستی ان خرافات کو ثقافت کا نام دے کر سماج میں گھسیڑنا چاہتے ہیں۔ نوجوان نسل تیزی سے ان خرافات میں پڑ رہی ہے۔ ہماری پہچان ڈھول باجوں اور ناچ گانوں سے وابستہ نہیں ہے۔ اہلیان گلگت بلتستان اپنی شجاعت و بہادری، جود وسخا، مہمان نوازی، انسانی ہمدردی، خلوص و محبت، ایثار و قربانی، جفاکشی اور رحمدلی کے لیے مشہور تھے۔ یہ مسخراپنی اور میراثی خصلت کیسے در آئی؟  یقین کیجئے سوشل میڈیا عصر حاضر کا موثر ترین اور مہلک ترین ہتھیار ہے۔ گلگت بلتستان کو اس نے جتنا “نام” بخشا ہے اتنا ہی “بدنام” بھی کردیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ بہت سے انٹرنیٹ صارفین منفی چیزوں میں پڑ کر اپنی توانائی صرف کررہے ہیں۔ 


کسی جھیل کنارے پڑاؤ ڈالا تو ناچا، کسی چراگاہ پر قدم رکھا تو رقص، کسی پہاڑی پر چڑھا تو ڈانس، ادھر برف پڑی اور اُدھر ناچنا شروع کیا۔ الغرض جہاں جہاں قدم پڑا، عمل رقص شروع ہوا اور ثقافت کا نام دے کر نذر فیس بک کر دیا۔ یہ کیسی پہچان بنائی جارہی ہے؟  ایسے بہت کم صارفین ہیں جو ان خوبصورت مقامات پر جاکر مثبت انداز میں تعارف پیش کرتے ہیں ورنہ خرافات ہی خرافات ہیں فقط۔ ان خوبصورت مقامات پر جائیں، بہترین انداز میں تعارفی ویڈیوز اور تحریریں شیئر کریں۔ ناچ گانا بخدا ہماری ثقافت نہیں ہے۔ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہماری اپنی عظیم روایات ہیں، رسوم ورواج ہیں۔ ہم میراثی نہیں ہیں ہرگز نہیں ۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال ہمارے یہاں زوروں پر ہے۔ یہ ہماری تعلیم و تربیت کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کہیں نہ کہیں والدین اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں میں غفلت برت رہے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے، ایک مجذوب فرد پر ایک پولیس والے نے دانستہ یا نادانستہ تشدد کیا۔ سوشل میڈیا پر فرد واحد کے ذاتی فعل کو آڑ بنا کر ادارے کو جس تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور جو تمسخُر اُڑایا گیا، الحفیظ والامان۔ کسی ایک صارف کی نظر ہجوم کی کارستانی پر نہیں پڑی کہ کیسے اس نیم پاگل فرد کو ہجوم اُکسا رہا ہے؟  کیسے پولیس والوں سے بھڑنے کا درس دیا جارہا ہے؟  کسی نے بھی ایک سطری تحریر لکھنا گوارا نہیں کیا۔ میں نہیں کہتا کہ گلیا نامی شخص کو انصاف نہ ملے لیکن جو رویہ اپنایا گیا وہ قابل تحسین ہرگز نہیں تھا۔ گلگت بلتستان کی پولیس واقعی مثالی ہے،  اس بات کے شاہد اس خطے کی سیاحت پر آنے والے لوگ ہیں۔ اچھے برے لوگ کہاں نہیں ہوتے؟  جب منبر ومحراب ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہیں تو کسی ادارے میں بھی کالی بھیڑوں کا پایا جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔


سوشل میڈیا کے ذریعے آپ دنیا کو مثبت پیغام دے سکتے ہیں۔ اپنی صدیوں پر محیط ثقافت سے لوگوں کو روشناس کرا سکتے ہیں۔ شومئی قسمت کہ ہمارے کرتوت تخریبی ہیں۔ کہیں بےنامی اکاؤنٹ بنا کر عزت دار لوگوں کی ناموس ُاچھالی جاتی ہے، کہیں ذات پات کا درس دیا جاتا ہے تو کہیں تفرقہ بازی کی باتیں ہورہی ہیں۔ ذات پات اور قومیت اترانے کی چیزیں نہیں ہیں۔ قوم عاد و ثمود زیادہ طاقتور تھے، لیکن ان کی طاقت انہیں بچا نہ سکی۔ وہ زمانے کے لیے نشان عبرت بنا دیے گئے۔
            فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں             کیا  زمانے میں  پَنپنے کی  یہی  باتیں ہیں


 اجتماعی سوچ رکھنے والے افراد انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جو اجتماعیت پر لکھتے، بولتے ہیں ورنہ ہر کوئی اپنی ذات کے خول میں مقید ہے۔ ہر علاقے میں کئی کئی مسائل ہیں لیکن گلگت بلتستان میں بلحاظ ضلع اگر دیکھا جائے تو دیامیر مسائل کا گڑھ ہے۔ صحت، تعلیم، پینے کا پانی،بجلی، سڑکیں وغیرہ یہاں کے اہم مسائل ہیں لیکن افسوس کبھی کوئی میڈیا ٹرینڈ بنا ہو۔ ضلع بھر کا اکلوتا ہسپتال کس کسمپرسی کے عالم میں ہے، کبھی کوئی ٹرینڈ بنا؟ چلاس شہر اکثر وبیشتر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے، کبھی یک آواز ہو کر صدا بلند کی؟  سڑکوں کی خستہ حالی پر لب وا ہوئے؟  آلودہ پانی کے خلاف کبھی احتجاج کیا؟  کبھی تعلیم کی راہ میں درپیش مسائل پر بات کی؟  مجھے معلوم ہے بہت کم لوگ ہیں جن کے اندر اجتماعی سوچ ہے، اکثریت ان چیزوں سے یکسر غافل ہے۔ سوشل میڈیا کو ہتھیار سمجھنے والے تو بہت ہیں لیکن ہتھیار کو مثبت استعمال میں لانے والے بہت کم ہیں۔ سوچ بدلنا ہوگی،  سوشل میڈیا کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم پاکستان کے جھومر پہ کالک تو نہیں مل رہے؟  ہم داغ رسوائی کا باعث تو نہیں بن رہے۔ گلیا والا واقعہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہماری سوچ کا معیار کیا ہے؟


شیئر کریں: