Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بجلی مزید مہنگی کرنے کی تیاریاں ۔ محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

بجلی مزید مہنگی کرنے کی تیاریاں ۔ محمد شریف شکیب

سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 12 پیسے فی یونٹ اضافے کیلئے نیشنل الیکٹر ک پاور ریگولیٹری اتھارٹی میں درخواست دائرکردی ہے جو دسمبرکی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں دی گئی ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ دسمبر2021 میں 8 ارب 52 کروڑیونٹ بجلی پیدا ہوئی، بجلی کی پیداواری لاگت 73 ارب 84 کروڑروپے رہی، 22 روپے 24 پیسے میں فرنس آئل سے مہنگی ترین بجلی پیدا کی گئی، ایل این جی سے 17 روپے 80 پیسے فی یونٹ میں بجلی پیدا ہوئی، 14 روپے 8 پیسے فی یونٹ کے حساب سے ڈیزل سے بجلی پیدا ہوئی، کوئلے سے بجلی کی پیداواری لاگت 13 روپے 31 پیسے فی یونٹ میں ہوئی، ایران سے 13 روپے 26 پیسے فی یونٹ بجلی درآمد کی گئی،اس لئے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں 3 روپے 12 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے۔نیپرا یکم فروری کوبجلی کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست کی سماعت کریگا مطلوبہ اضافے کی منظور ی کی صورت میں صارفین پر30 ارب سے زائد اضافی بوجھ پڑے گا۔رواں مالی سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں یہ آٹھواں اضافہ ہوگا۔

فیول ایڈجسمٹ کی مد میں صارفین سے اب تک ڈیڑھ کھرب روپے بٹورے گئے ہیں۔میرے اپنے گھر کا دسمبر جنوری کا بل 12ہزار سے زائد آیا ہے اس میں استعمال شدہ یونٹ 527دکھائے گئے ہیں بجلی کی اصل قیمت 17روپے یونٹ ہے۔جبکہ بل میں مزید خرافات شامل کرکے 23روپے 73پیسے یونٹ کے حساب سے وصول کیاگیا۔ ان میں 1282روپے فیول ایڈجسٹمنٹ،869روپے کیو ٹی آر ایڈجسٹمنٹ، 226روپے ایف سی سرچارج،124روپے الیکٹریسٹی سرچارج،35روپے ٹی وی فیس، 1468روپے جنرل سیلز ٹیکس، 240روپے ایف پی اے اور851روپے لیٹ پے منٹ فیس شامل ہے۔ دسمبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تین روپے بارہ پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست کے علاوہ 93پیسے فی یونٹ اضافے کی الگ درخواست بھی جمع کرائی گئی ہے۔ جس کے ذریعے صارفین سے دس ارب روپے بٹورنے کی تیاریاں ہیں۔

بجلی کی تقسیم کے نظام سے خود پیسکو حکام بھی پریشان ہیں ان کا کہنا ہے کہ جن گھروں میں چار بلب اور دو پنکھے چلتے ہیں اس کا ماہانہ بل بمشکل آٹھ سو روپے آتا ہے جبکہ بل میں ایف پی اے کے نام سے ڈھائی ہزار روپے صارفین سے اضافی وصول کئے جارہے ہیں۔ اور وہ صارفین کو اس کی وضاحت دینے سے بھی قاصر ہیں۔ملک میں بجلی کی پیداوار اور تقسیم کا نظام جب واپڈا کے پاس تھا تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔سابقہ حکومتوں نے ہر شہر کے لئے الگ پاور کمپنیاں قائم کیں۔ بجلی کی قیمت کا تعین کرنے کے لئے نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جو سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے ساتھ مل کر لوٹ مار میں مصروف ہے۔ ملک میں ہائیڈل پاور سٹیشن سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت تین سے چار روپے فی یونٹ ہے۔ وطن عزیز میں پانی سے کم از کم پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے اپنے کمیشن کی خاطر سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے فرنس آئل، کوئلے، ڈیزل اور شمسی توانائی سے چلنے والے مہنگے پلانٹس کی خریداری کی۔ عوام کی جیبوں سے نکالی گئی رقم کا دو تہائی حصہ پرچیزنگ ایجنسی، ریگولیٹری اتھارٹی اور پاور پروڈیوسرز کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔

پچاس سال پہلے بچھائی گئی ٹرانسمیشن لائنیں اپ گریڈ کرنے کے لئے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے پاس پیسے نہیں بچتے۔اگر ہم پانی سے تیس ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا کریں گے تو ہماری ٹرانسمیشن لائنیں اٹھارہ ہزار میگاواٹ سے زیادہ لوڈ اٹھا ہی نہیں سکتیں یہی وجہ ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سال بھر جاری رہتی ہے۔ بل نہ دینے والے اداروں سے کوئی نہیں پوچھتا،لائن لاسز کے نام پر نادہندگان کا بوجھ بھی باقاعدگی سے بل دینے والے صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔ایسے قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں کہ بجلی کا نیاکنکشن لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ قانونی طور پر کنکشن کے پیچھے خوار ہونے کے بجائے کنڈے لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔


شیئر کریں: