Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال میں اسپیشل افراد کی حالت زار – محکم الدین ایونی

شیئر کریں:

چترال میں اسپیشل افراد کی حالت زار – محکم الدین ایونی

چترال سپیشل افراد کیلئے سب سےمشکل جگہ ہے۔ جہاں لوگ تعاون کیلئے تیار ہیں اور نہ سرکاری ادارے سپشل افراد کے مسائل پر توجہہ دیتےہیں ۔ یوں چترال کے کم و بیش دس ہزار سپیشل افراد لوگوں اور حکومت کی بے حسی کا شکار ہیں۔ یہ خیالات ہیں چترال کے سپیشل فرد ثناء اللہ کےجو چترال کے ہزاروں اسپشل افراد کے مسائل کا درد لئے عزم و ہمت کے پہاڑ کی طرح میدان عمل میں ہیں ۔ اور ان کو یقین ہے۔کہ وہ سپشل افراد کے مسائل کم کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے ۔ ثناء اللہ نے 2014 میں اسپشل افراد کو یکجا کرنے اور اس پلیٹ فارم سے مسائل حکومت تک پہنچانے کیلئے چترال سپیشل پیپل آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی ۔ اور خود بطور صدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے مطابق چترال میں 3800 سپشل افراد ان کے ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں ۔ جبکہ اپر اور لوئر چترال میں سپشل افراد کی مجموعی تعداد دس ہزار سے کہیں زیادہ ہے ۔ لیکن معذوری ، دشوار گزار راستوں کی وجہ سے روابط میں مشکلات سپشل افراد کی بڑی آبادی کو یکجا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔


ثناء اللہ نے گذشتہ روز میڈیا سے ایک ملاقات میں اپنی آہ و زاری بیان کرتے ہوئے حکومتی بے حسی پر شدید تنقید اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔کہ کسی بھی ادارے میں اسپشل افراد کی مجبوریوں کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا ۔ سکول ہو کہ ہسپتال یا دیگر ادارے ان تک سپشل افراد کی رسائی انتہائی مشکل ہے ۔ یوں سپیشل افراد تعلیم کے حصول اور صحت کی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے ۔ کہ سکولوں ، ہسپتالوں کی تعمیر کے وقت ہی سپیشل افراد کی آسان رسائی کو پیش نظر رکھا جائے ۔ ہر ادارے میں اسپیشل افراد کیلئے واش رومز کی سہولت موجود ہو ۔ یا پہلے سے موجود عمارتوں میں کچھ ترمیم کرکے اسپیشل افراد کے وہیل چیئر کے ذریعے پہنچنے کو ممکن بنایا جائے۔ لیکن یہاں تو اسپشل افراد کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ ان کے لئے سہولت پیدا کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ انہوں نے کہا۔کہ اسپشل افراد کے مسائل حل کرنے کیلئے وہ لوگ بھی قدم نہیں اٹھاتے ۔ جن کے اپنے گھروں میں بہن ، بیٹا ، بیٹی اور بھائی کی صورت میں اسپشل افراد موجود ہیں ۔ کی موجودگی کو ظاہر کرنا عیب اور اپنے ساتھ توہین سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ایسے صاحب حیثیت سیاسی و سماجی اور سرکاری شخصیات ہوتے ہیں ۔ کہ وہ اگر آگے بڑھیں ۔ تو وہ ان مجبور لوگوں کیلئےبہت کچھ کر سکتے ہیں۔

ثناءاللہ کے مطابق ملک کے دوسرے شہروں میں اسپشل افراد کو کچھ نہ کچھ سہولتیں دی جاتی ہیں ۔ لیکن چترال مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ یہاں ابھی تک سرکاری یا غیر سرکاری طور پر وہیل چئیر تقسیم نہیں کئے گئےہیں ۔ آگہی یا تفریحی پروگرام منعقد نہیں کئے جاتے ۔ جس کی وجہ سے چترال کے اسپشل افراد انتہائی احساس کمتری کا شکار ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ محکمہ زکواہ اور الخدمت فاونڈیشن کی طرف سے بھی کسی قسم کی امداد نہیں دی گئی ہے ۔ جو کہ چترال میں رفاہی کام کے بڑے ادارےہیں ۔ اسی طرح سوشل ویلفئیر بھی برائے نام ادارہ ہے ۔ جس سے اسپشل افرادکو کوئی امداد اور سہولت حاصل نہیں ۔

ثناء اللہ کا کہنا ہے ۔کہ چترال کے وہ اسپشل افراد جو دونوں ہاتھوں ، بازووں سے محروم ہیں ۔ انتہائی مایوسی اور محرومی کا شکار ہیں ۔ کیونکہ ان کے فنگر پرنٹ نہ ہونے کے باعث نادرا ان کے نام شناختی کارڈ جاری نہیں کر رہا ۔ جس سے وہ ایک طرف سے ذہنی دباو و مایوسی کا شکار ہیں اور دوسری طرف جو مخیر ادارے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ تو شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث وہ امداد سے محروم رہتے ہیں ۔ اس لئے بطور صدر چترال اسپشل پیپل آرگنائزیشن ثناء اللہ کا مطالبہ ہے ۔ کہ حکومت ایسے اسپشل افراد کے پاوں کی انگلیوں کو فنگر پرنٹ کے طور پر قبول کرکے انہیں شناختی کارڈ جاری کرے ۔ ایسے افراد شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث مردم شماری اور ووٹ سے بھی محروم رہتے ہیں ۔ جو کہ ناانصافی اور ریاستی جبر کے مترادف ہے ۔


انہوں نے اس بات پر بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ کہ حکومت نے ملازمتوں میں اسپشل افراد کیلئے دو فیصد کوٹہ تو مختص کیاہے ۔ لیکن کسی بھی محکمےمیں اس پر عمل نہیں ہو رہا ۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں 84 پوسٹ میں سےایک پر بھی اسپیشل فرد بھرتی نہیں ہے۔ جو کہ ظلم کی انتہا ہے ۔ لوگ پیسے دے کر اور رشتے و تعلق سے پوسٹ لے لیتے ہیں ۔ اسپیشل افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔


ثناء اللہ کے مطابق اسپشل افراد کیلئے ڈس ایبل سرٹیفیکیٹ کا حصول بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اور اسپشل افراد کو اس سرٹفیکیٹ کیلئے ایک دو اٹینڈنٹ کے ساتھ دور اور دشوار گزار راستوں پر بھاری کرایہ ادا کرکے یا گاڑی بکنگ کرکے چترال شہر آنا پڑتا ہے ۔ اور ہوٹلوں میں رہنا پڑتا ہے ۔ جو کہ ایسے افراد اور فیملی کیلئے ناقابل برداشت ہے ۔ اس لئے ان کا مطالبہ ہے ۔ کہ مختلف مقامات میں دس پندرہ اسپیشل افراد ڈس ایبل سرٹفیکیٹ کیلئے درخواست گزارہوں ۔ تو ان کو دور دراز سے چترال شہر بلانے کی بجائے ڈاکٹر اور متعلقہ اسٹاف اسی مقام پر ان کا معائنہ کرکے سرٹفیکیٹس جاری کریں ۔ تو یہ اسپشل افراد بھاری سفری اخراجات سے بچ سکتے ہیں ۔

ثناء اللہ کے مطابق پوری دنیا میں اسپشل افراد کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹانےکا موقع فراہم کیا جاتاہے۔ اس کے مقابلے ہمارے ملک خصوصا چترال میں کسی بھی دفتر میں اسپشل افراد کا کام جلد انجام دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ۔ نادرا اور دیگر دفاتر میں کوئی پرسان حال نہیں ۔ اسپشل افراد کے ساتھ کئی مسائل ہوتے ہیں ۔ وہ طویل انتظار نہیں کر سکتے ۔ واش رومز کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے ۔ لیکن مجال ہے ۔ کہ کوئی ان پر توجہ دے ۔ اس لئے حکومت سےپر زور مطالبہ ہے ۔ کہ جس ادارے میں اسپشل افراد کو کسی کام کیلئے جانا پڑے ۔ تو ادارہ ان پر اولین توجہ دے ۔ اور ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے ۔
ثناء اللہ کا حکومت سے یہ بھی مطالبہ ہے ۔ کہ کہ حکومت اسپشل افراد کو ڈرائیونگ لائسنس ایشو نہیں کرتی ۔ جبکہ بعض اسپشل پرسن ڈرائیونگ کرکے اپنی ضرورت خود پوری کرنے کے قابل ہیں ۔ اس لئے ایسے افراد کو ڈرائیونگ لائسنس ایشو نہ کرنا بھی حکومت کی طرف سے انتہائی زیادتی ہے ۔ انہوں نے اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔کہ حکومت کی طرف سے اب تک اسپشل افرادکیلئے کئی اعلانات کئے گئےہیں ۔ لیکن تاحال کسی بھی اعلان پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔ جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں ۔ اب تک صرف طفل تسلیاں ہی دی جارہی ہیں ۔ انہوں نےحکومت سے اسپیشل افراد کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا۔


شیئر کریں: