Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ سیاہ رات ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

شیئر کریں:

دسمبر کا آخری عشرہ میں دن بھر لوگوں سے ملنے کے بعد گھر کی طرف روانہ تھا میں گھر جانے سے پہلے واک کے لیے قریبی پارک میں اُتر گیا تاکہ جسم میں بڑھتے ہوئے چربی کے ذخائر اور کو لیسٹرول کو کنٹرول میں رکھا جا سکے سورج نے جیسے ہی مغرب میں پناہ لی تو رات کی دیوی نے تیزی سے اپنی سیاہ گھنیری زلفوں کو شہر میں پھیلا کر سورج کی تھوڑی بہت روشنی کو بھی چاٹ لیا تھا دن کے اجالے پر رات کی سیاہی ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ غالب آتی جارہی تھی میں جیسے ہی آرام دہ گرم گاڑی سے نیچے اُترا تو دسمبر کی یخ برفیلی ہواؤں نے میرا استقبال کیا برفیلی یخ ٹھنڈی ہواؤں سے پتہ چل رہا تھا کہ شمالی علاقہ جات برفستان بن چکا ہے ملکہ کوہسار مری اور شمالی علاقہ جات نے برف کی چادر اوڑھ لی تھی.

اسی لیے برفیلی سرد ہواؤں نے پاکستان کے باقی حصوں پر بھی شدید ٹھنڈکی چادر تان دی تھی میں پارک میں داخل ہوا تو اکا دکا لائٹیں جو کُہر میں ٹھٹھری نظر آرہی تھیں اُن کی روشنی بھی کُہر دھند کی وجہ سے دھندلی نظر آرہی تھی جب میں نے پارک میں قدم رکھا تو سیاہ رات نے چاروں طرف تاریکی اور سناٹا طاری کر دیا تھا میں نے جیکٹ کے بٹن بند کئے منہ پر ماسک سر پر گرم مفلر رکھا ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈالے اور تیزی سے پیدل چلنے لگا یخ ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے درجہ حرارت منفی کے قریب لگ رہا تھا میں نے جب تیز چلنا سٹارٹ کیا تو سردی زیادہ محسوس ہو نے لگی لیکن میں اِس امید پر کہ ایک چکر کے بعد جب جسم گرم ہو جائے گا تو سردی کا احساس بھی کم ہو جائے گا دسمبر کی اداسی رات کا سناٹا اور تاریکی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی شدید ٹھنڈ کی وجہ سے مجھے کوہ مری میں گزارے دن یاد آنے لگے .

جب ہم مال روڈ سے رات کو چاروں طرف پڑی برف کے اندر دھنستے دھنستے گھروں کو جاتے یاد آگیا کس طرح ہم گھنٹوں تک برف میں سے گزر کر اپنے گھروں میں جا کر گرم ہیٹروں کے سامنے بیٹھ کر گرما گرم چائے وغیرہ پیتے۔ میں مری کی سردی کو یاد کرتے ہو ئے آگے بڑھ رہا تھا دس منٹ تیز قدموں کے بعد رگوں میں حرارت دوڑنے لگی اور سردی کا احساس بھی کم ہوتے لگا تو میں اردگرد کے ماحول اور لوگوں کا مشاہدہ بھی کرنے لگا رات کے وقت بہت کم لوگ موجود تھے بلکہ نہ ہو نے کے برابر تھے منفی درجہ حرارت شدید سردی کی وجہ سے لوگ اپنے آرام دہ گھروں میں گھس کر آرام کر رہے تھے سردیوں کی راتوں میں لوگ ویسے بھی جلدی آرام دہ گرم گداز بستروں میں گھس جاتے ہیں یا پھر ہیٹر لگا کر ڈرائی فروٹ کے ساتھ مختلف ٹی وی چینلوں کی نشریات سے لطف اندوز ہو تے ہیں یا پھر آج کل کی آفت مو بائل جس میں سوشل میڈیا نیٹ کی ہو شربا رونقیں کہ ہر بندہ صوفے یا بستر میں اپنی ہی دنیا جگا کر بیٹھا ہو تا ہے

کوئی مو بائل کے ساتھ مصروف تو کسی نے لیپ ٹاپ کھول رکھا ہو تا ہے اور جوبچ جائیں وہ اپنی مرضی کے چینلوں سے لطف اندوز ہو تے نظر آتے ہیں جو افورڈ کر سکتے ہیں وہ گاڑیاں لے کر شہرت کے لذت کدوں میں اپنی مرضی کے گرما گرم لذیذہ کھانوں سے لطف اندوز ہو تے ہیں سیر واک کے شو قین اب پارکوں کا رخ صبح یا دوپہر کو کرتے ہیں سیا ہ راتوں میں مُجھ جیسے دیوانے ہی آتے ہیں مجھے واک کرتے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا رات کے اندھیرے نے دن کے اجالے کو پوری طرح نگل لیا تھا اب میں واک کے دوران اطراف کا بھی مشاہدہ کر تا جارہا تھا اِس عمل کے دوران میں واکنگ ٹریک سے تھوڑا ہٹ کر ایک درخت کے نیچے کچھ حرکت محسوس کی شروع میں تو میں نے نظر انداز کیا کہ شاید کوئی عاشقوں کا جوڑا من موجی میں مصروف ہو گا لیکن انسانی جبلت کے تحت تجسس کھوج کے دریچے میرے اندر وا ہو چکے تھے اب میں جیسے ہی اُس درخت کے پاس سے گزراتو بغور دیکھنے کی کو شش کی درخت کے نیچے بہت اندھیرا تھا لیکن دو ر سٹریٹ لائٹ کی دھندلی روشنی میں مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی ذی روح رضائی لئے درخت کے نیچے سو رہا ہے

کبھی کبھی وہ حرکت بھی کرتا اب میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر تھوڑا قریب ہوا تو قریب جانے سے پہلے اخلاقی طور پر آواز دی کوئی ہے تا کہ اگر کوئی عاشقوں کاجوڑا ہے تو جواب دے یا کوئی انسان بھی ہے تو آواز دے لیکن میرے بار بار پکارنے پر جب جواب نہیں آیا تو میں نے موبائل کی روشنی آن کی اور فرش نشین کے بہت قریب ہو کر دیکھنے لگا کر سو رہا ہے لیکن منظر حیران کن تھا کاغذوں اور ردی کے ٹکڑوں کا بہت بڑا ڈھیر تھا جس کے قریب ایک مفلوک الحال مجذوب شخص پھٹی ہوئی رضائی میں لیٹا تھا رضائی کیاچیتھڑے تھے رضائی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی گردن کے نیچے تکیے کی بجائے پرانے کپڑوں کا گچھا سا تھا جس پر ایک زندہ انسان لیٹا تھا دھندلی روشنی میں دیکھا پچاس سال سے اوپر کا انسان بے ترتیب لمبے لمبے بالوں کے ساتھ بالوں کی حالت بتا رہی تھی بہت عرصہ پہلے اِن کو دھویا گیا ہے.

داڑھی کے بال لمبے خودرو جھاڑیوں کی طرح بے ترتیبی سے چہرے پر پھیلے تھے میں نے جب اچھی طرح دیکھ لیا کہ فرش پر موجود شخص ہوش و حواس میں نہیں کوئی مجذوب پاگل دیوانہ ہے جو موسموں کی قید سردی گرمی سے آزاد زندگی کے دن پورا کر رہا ہے میں نے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کو شش کی لیکن وہ میری طرف متوجہ ہونے کی بجائے اپنے جسم کے مختلف حصوں پر خارش کرنے میں مصروف تھا خارش کرتے ہوئے جب وہ اپنے جسم کو حرکت دے رہا تھا تو نئی حقیقیت سامنے آئی کہ چھیتڑا نما پھٹی ہوئی رضائی میں کوئی اور جسم بھی تھا جو کسمسا کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا اب مجھے لگا شاید اِس کی بیوی یا کوئی اور انسان بھی ہے اور میں نے اِن کے آرام میں مخل ہوا ہوں لہذا میں اٹھ کر دوبارہ واکنگ ٹریک پر آگیا میراجذبہ ہمدردی پوری طرح بیدار ہو چکا تھا کہ کس طرح جب اِس کی مدد کروں اِس کو کھانا دوں گرم رضائی کا انتظام کروں یہ بیچارہ ٹھنڈی راتوں میں کیسے گزار ا کرتا ہوگا میں انہی سوچھوں میں گم تھا اور جب چکر پورا کر کے دوبارہ اُس طرف آرہا تھا تو دور پارک میں دو سائے داخل ہو ئے جو موبائل کی روشنی میں مجذوب کی طرف بڑھ رہے تھے,

سایوں کی قد و قامت سے لگ رہا تھا ایک بڑا اور ایک بچہ حرکت کر رہے ہیں میں بھی تجسس سے مجبور تیزی سے مجذوب کی طرف بڑھنے لگا میرے پاس جانے سے پہلے دونوں سائے مجذوب تک پہنچ چکے تھے جب میں وہاں پہنچا تو خوشگوار حیران کن منظر میرا منتظر تھا مجذوب اٹھ چکا تھا دھندلی روشنی میں ایک عورت ایک دس سالہ بچے کے ساتھ آئی تھی دونوں نے ہاتھ میں چائے کا تھرماس پکڑا ہوا تھا شاپر سے دو پیالے نکالے دونوں کو گرما گرم چائے سے بھر دیا گرما گرم ڈبل روٹی بند بھگو کر مجذوب کے منہ میں ڈالنے لگا دوسرا انسا ن دیکھ کر میں حیران رہ گیا ایک کتیا اور اُس کے دو بچے دوسرے پیالے سے چائے پی رہے تھے مجذوب کا ساتھی ایک کتیا تھی جو اپنے بچوں کے ساتھ رضائی میں گھسی تھی خدا کے نظام پر حیران کس طرح دیوانوں کا خیال رکھتا ہے میں پاس بیٹھ گیا عورت کو سلام لیا تو وہ بولی میرا بیٹا دن کو یہاں کرکٹ کھیلتا ہے اِس کی اِس دیوانے سے دوستی ہے اِس لیے صبح شام کھانا دینے یہاں آتا ہے میں نے بچے کی آنکھوں میں روشنی دیکھی وہ روشنی جس سے راتوں کا اندھیرا دور ہو تا ہے انسانیت کی پر شکوہ عمارت ایسے ہی انسانیت کے معماروں سے قائم و دائم ہے اور اللہ تعالی کس طرح اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔


شیئر کریں: