Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خدارا غریبوں پہ رحم کیجئے ۔ تحریر: فیض العزیز فیض‎

شیئر کریں:

پہلے  سال بعد بجٹ آتا تھا مگر اب تو حال یہ ہے کہ ہر آٹھویں دن، ہر چوتھے دن اعلان ہوتا ہے۔ پہلے بجلی مہنگی ہوتی ہے،  پھر پٹرول مہنگا ہو جاتا ہے۔ سبزی لینے جاؤ، گوشت لینے جاؤ، ہر چیز مہنگی ہے۔ پہلے شاید کسی کو معلوم ہوتا تھا. کہ آٹا کتنے روپے کلو ہے، اب اچھی طرح معلوم ہے. کہ آٹے دال کا کیا بھاؤ ہے۔ جو کہتے تھے کہ بہت خوشحالی آئے گی اب اتنی ہی پریشانی آ گئی ہے۔‘مہنگائی نے سب سے زیادہ دسترخوان کو متاثر کیا ہے۔پہلے  ہفتے میں  تین بار گوشت کھاتے تھے، اب وہ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ ہفتے میں ایک بار کھاتے ہیں۔ جو چیز آدھا کلو پکاتے تھے، وہ اب پاؤ بھر پکاتے ہیں۔ عزیز و اقارب سے میل ملاقات اور رشتہ داروں کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا کیونکہ پیٹرول اب لوگوں کے بس سے باہر ہے۔‘پاکستان میں عام خاندان اپنی آمدن کا  زیادہ حصہ کھانے پینے اور بجلی، گیس کے بلوں پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔

فرانس میں جب لوگوں کو روٹی ملنا مشکل ہوئی تو وہ جلوس لے کر شاہی محل پہنچے تو شہزادی نے ماں سے پوچھاکہ ان لوگوں نے جلوس کیوں نکالا ہے۔ملکہ نے جواب دیا کہ ان لوگوں کو کھانے کے لیے روٹی نہیں مل رہی ’’اگر روٹی نہیں ہے تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘شہزادی نے معصومیت سے پوچھا۔موجودہ صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں سے ڈنر‘لنچ یا ہائی ٹی کرنے کے بعدباہر نکلنے والے بچے اپنی قیمتی گاڑیوں کے پاس کھڑے بھکاری بچوں کو دیکھ کر اپنی ماؤں سے پوچھتے ہوں گے کہ یہ بچے صاف ستھرے کپڑے پہن کر اندر کھانے کے لیے کیوں نہیں جاتے۔جب حکمران کے ارد گرد‘ترین‘انیل مسرت‘ ذولفی اور حلیم خان بیٹھے ہوں تو غربت کے خاتمے کے لیے انوکھے خیالات ہی سوجھتے ہیں. فارغ اور بھوکی عوام اکثر اس بحث میں اج کل ہر چوراہے پہ نظر آتے ہیں. کہ بھائی پیسہ کہاں جا رہا ہے۔۔؟قرضوں کی واپسی میں ۔۔ تو قرضوں میں کمی آئی یا اضافہ ہوا۔۔؟؟کیا تعلیم میں کوئی تبدیلی آئی؟کیا لا اینڈ آرڈر میں کوئی بہتری آئی. کیا صحت کے شعبے میں کوئی تبدیلی آئی کیا سرکلر ڈیبٹ میں کوئی کمی آئی.

کیا بے روزگاری میں کوئی کمی آئی. کیا کرپشن میں کوئی کمی آئی کیا پاکستان کے سفید ہاتھی سمجھے جانے والے کسی ایک بھی ادارے کو بہتر کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔؟کیا لوگ آج اتنے ہی خوشحال ہیں جتنے تین سال پہلے تھے۔؟اگر نہیں آئی تو پھر کہیں نہ کہیں خرابی ضرور ہے اور میں اس قوم کو جانتا ہوں یہ بہت بے صبری ہیں. یہ لمحوں میں فیصلہ بدل دیتے ہیں. اس کی کچھ جھلک ہم بلدیاتی الیکشن میں پشاور میں دیکھ چکے ہیں. ۔جناب اگر احساس پروگرام چل رہا ہے تو بتائیں اس قوم کے کتنے لوگ لائن میں لگ کر روٹی کھائیں گے یا وظیفہ لینے کے لیئے لائن میں لگیں گے۔؟ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ جب حکمران ایوان اقتدار میں بیٹھتے ہیں تو وظیفہ خور مشیر اپنی نوکریاں پکی کرنے کے لیئے خوشامد میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔لیکن زمین پر صورتحال مختلف ہوتی ہے۔پاکستانی سیاست میں اصل کھلاڑی اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور سیاستدان ہی ہیں ۔ انہوں نے خوب اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اس ملک کی بھولی عوام کو ‘رج’ کے بے وقوف بنانا ہے۔ ایک ہی خاندان میں سے کچھ لوگ طاقتور اداروں میں چلے جاتے ہیں تو کچھ قانون کے ‘پاسبان’ بن جاتے ہیں اور کچھ مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ بن جاتے ہیں کہ جب جس کی حکومت آئی، اس کا حصہ بن جایا جائے.جلال الدین اکبر سے ہمارے کسی بھی حکمران نے نہ سیکھا تو اندازِ حکمرانی نہ سیکھا مگر ایک بات اس سے ضرور سیکھی۔

اکبر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر ‘مقامی اشرافیہ’ کے ساتھ رشتے داریاں قائم کرلیں جس کے باعث اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا اور ملک میں انتظام و انصرام کے قیام میں بھی آسانی میسر ہوئی۔یہ نکتہ برِصغیر کی اشرافیہ نے بخوبی سمجھ لیا، اور امرا نے اپنی کیمبرج اور آکسفورڈ پلٹ اولادوں کو پاکستان کی افسر شاہی میں گھسایا۔ کوئی جج بنا تو کوئی جرنل اور کوئی ضلع کا بادشاہ ڈپٹی کمشنر بن گیا۔ انہوں نے آگے آپس میں رشتے داریاں بنالیں، کسی کی بیٹی بہو بنالی تو کسی کا بیٹا کسی کا داماد بن گیا۔ اب کسی ایک پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو اس کی پشت پناہی کے لیے سب ایک ہوجاتے ہیں۔پی ٹی آئی کی حکومت نئی نئی آئی تھی تو ڈھیروں ٹاسک فورسز قائم کی گئی تھیں ان میں سے ایک بیوروکریسی اصلاحات پر بھی تھی جس کی صدارت کی بھاری ذمہ داری ڈاکٹر عشرت حسین کے ناتواں کاندھوں پر ڈالی گئی تھی۔

میں حیران ہوں کہ ان کے پاس نہ جانے کس پہنچے ہوئے سنیاسی کی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہر بادشاہ کے دربان بن جاتے ہیں.انہوں نے تاریخی تبدیلیاں لانی تھیں، حکومت کے تقریباً 4 سال ہوگئے ہیں مگر اس ٹاسک فورس نے بھی دھیلے کا کام نہیں کیا۔ اک شہباز شریف ہیں جنہوں نے ایک ‘دھیلے’ کی کرپشن نہیں کی، دوسرے ڈاکٹر عشرت حسین ہیں جنہوں نے ایک دھیلے کا کام نہیں کیا۔ کرپشن سے متعلق شہباز شریف کے مؤقف کے بارے میں تو شدید شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا ہے مگر عشرت حسین پر عمومی طور پر سب متفق ہیں کہ ان کی بس ‘آنیاں جانیاں’ ہی ہیں مگر کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔قرض پہ چلتی معیشت، دعاؤں پہ چلتے عوام، بیساکھیوں پہ چلتی حکومت اور چانس پہ چلتا ملک جناب وزیراعظم صاحب مزید مس ایڈونچرز سہارنے کی تاب نہیں رکھتے۔ خدارا ہوش کیجئے، خدارا رحم کیجئے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
56868