Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوائے دل ۔ پیکر خلوص و شرافت مولانا محمد نعمت اللہ چترالیؒ ۔ (محمد شفیع چترالی)

شیئر کریں:


جامعہ دارالعلوم کراچی کے بزرگ استاذ اور راقم الحروف کے سسر محترم مولانا محمد نعمت اللہ چترالی گزشتہ ہفتے اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ ارجعون۔ اس طرح خلوص، شفقت، محبت، سادگی اور عاجزی و انکساری کا ایک باب بند ہوا اور مجھ سمیت حضرت کے ہزاروں متعلقین، شاگرد اور عقیدت مند دعاؤں کے ایک بڑے سہارے سے محروم ہوگئے۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ و کل شئی عندہ باجل مسمیٰ


مولانا محمد نعمت اللہؒ غالباً 1952ء میں چترال کی مردم خیز وادی تریچ کے گاؤں لونکوہ میں مولانا محمد خانزادہ مرحوم کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ 1967ء میں دینی علوم کی باقاعدہ تعلیم کے لیے چھوٹی عمر میں کراچی کا سفر کیا اور سیدھے دارالعلوم کراچی پہنچے جہاں عمر بھر کے تعلق اور خدمت کی سعادت ان کی منتظر تھی۔ اعدادیہ سے لے کر تخصص تک مکمل تعلیم ایک ممتاز طالب علم کی حیثیت سے دارالعلوم میں حاصل کی اور 1977ء میں دارالعلوم سے سند فراغت حاصل کی۔ دار العلوم کے افق پر اس زمانے میں علم و عمل کے متعدد آفتاب و ماہتاب جلوہ گر تھے جن سے مولانا مرحوم نے استفادہ کیا تاہم ان کی سب سے بڑی سعادت یہ تھی کہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی نظر عنایت ان پر پڑی اور انہوں نے دارالعلوم کے سینکڑوں طلبہ اور اپنے ہزاروں متعلقین میں سے ان کو اپنی ذاتی معاونت اور خدمت کے لیے چنا۔

مفتی صاحب رحمہ اللہ کی زندگی کے آخری مہینوں میں ان کے کمرے اور دفتر میں جن حضرات کو باریابی، خدمت اور مہمانداری کا موقع ملا ان میں مولانا مرحوم نمایاں تھے۔ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا آخری فتویٰ جو ان کی وفات سے چند گھنٹے قبل جاری ہوا، مولانا محمد نعمت اللہ کے قلم سے لکھا گیا۔ مفتی اعظم پاکستان کی پیرانہ سالی میں خدمت کے نتیجے میں جو دعائیں ملیں، مولانا مرحوم انہی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ سمجھتے تھے مگر ان کے خلوص کا عالم یہ تھا کہ اپنے اس اعزاز کا تذکرہ لوگوں کے سامنے کرنے سے کتراتے تھے۔ راقم کو زندگی میں صرف ایک بار میرے پوچھنے پر بچشم تر اپنی ان حسین یادوں میں شریک کیا اور بتایا کہ میرے حضرت نے مجھے اپنے خاندان کے ایک فرد کا درجہ دیا ہوا تھا اور مجھ سے اپنے بچوں جیسا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے بھی مولانا کا بہت خیال رکھا۔ وہ شادی کے بعد پہلی دفعہ فیملی کو کراچی لے آئے تو شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے گھر کے متصل مکان میں انہیں رہائش دی گئی۔ مولانا کی وفات پر تعزیت کے لیے شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا زبیر اشرف عثمانی، مولانا ڈاکٹرعمران اشرف عثمانی اور حضرت مفتی شفیعؒ کے خاندان کے دیگر حضرات الگ الگ تشریف لائے اور ہر ایک نے مولانا کے ساتھ اپنے خاندانی تعلق کا خصوصی حوالہ دیا۔ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا کہ مولانا نے ہمارے والد ماجد کی نہایت پرخلوص خدمت کی۔ وہ علم اور عمل دونوں میں قابل رشک تھے۔ مولانا زبیر اشرف صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا، مولانا کو اپنے خاندان کے ایک فرد کی طرح ہی دیکھا۔ ان کی اور مولانا رشید اشرف سیفیؒ کی جوڑی مشہور تھی۔ دونوں نے اعدادیہ سے تخصص تک ساتھ پڑھا اور دار العلوم کی انتظامی خدمت میں ہمیشہ شانہ بشانہ رہے۔
ظاہر ہے کہ یہ سعادتیں بزور بازو نہیں ملا کرتیں۔ مولانا نعمت اللہ میں سادگی، خلوص، شرافت اور دیانت کی طبعی صفات تھیں جن کو مفتی اعظم پاکستان اور دارالعلوم کے دیگر بزرگوں کی صحبت اور تربیت نے صیقل کردیا۔ وہ حدیث مبارک ”المومن غر کریم“ (مومن سیدھا سادہ اور مہربان ہوتا ہے) کا بہترین مصداق تھے۔ وہ چالاکی، عیاری، بناوٹ، دکھاوا اور خود نمائی سے کوسوں دور رہنے والے تھے۔ ان کی مجلس میں غیبت کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ میں نے کبھی ان کو کسی معاصر پر منفی تبصرہ کرتے نہیں سنا۔ وہ نہایت معصوم طبیعت کے مالک تھے۔
مولانا محمد نعمت اللہ نے تقریباً44 سال کا عرصہ دارالعلوم میں تدریس اور انتظامی امور کی انجام دہی میں گزارا، وہ طویل عرصے تک دارالاقامہ کے قیم رہے اور کسی مرحلے میں بھی اپنے بزرگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ جس دن ان کی وفات ہوئی اس دن بھی انہوں نے اپنے حصے کے چاروں اسباق پڑھائے اور امتحان ششماہی کے پرچوں کی جانچ کے دوران سینے میں اچانک درد اٹھا جو چند گھنٹوں کے اندر ان کے سفر آخرت کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ انہیں ہر کام جلدی نمٹانے کی عادت تھی، ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے بھی ان کے ساتھ ان کے مزاج کا معاملہ کیا۔ چپکے سے اپنے پاس بلا لیا۔
میرے ساتھ ان کی شفقت اور خلوص کی کہانی اگر لکھنے بیٹھ جاؤں تو شاید دفتر کے دفتر بھر جائیں۔ میں جامعہ بنوری ٹاؤن کا ایک مسکین سا طالب علم تھا۔ ایک دن سہراب گوٹھ میں سڑک پار کرتے ہوئے ایک من ہوہنی صورت کے بزرگ کو کسی کا منتظر پایا تو قریب جاکر سلام کیا۔ انہوں نے کسی تک ایک پیغام پہنچانے کی چھوٹی سی خدمت میرے ذمے لگائی، میں وہ پیغام پہنچاکر آیا اور ان کو اس کی اطلاع دی تو بہت خوش ہوئے اور خوب دعائیں دیں۔ علاقائی نسبت سے ان کی شخصیت سے غائبانہ تعارف تھا اور اس وقت تک چونکہ میرے دو چار مضامین اور نظمیں ”ضرب مومن“ میں چھپ چکی تھیں، اس لیے وہ بھی مجھے غائبانہ جانتے تھے۔ اس لیے جب تعارف ہوا تو بہت خوش ہوئے اور مجھے دارالعلوم آنے کی دعوت دی۔ اس طرح ان سے محبت و عقیدت کا ایک تعلق بنا جو آگے چل کر ایک میٹھے اور پرخلوص رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ نسبت طے ہونے کے ایک ہفتے بعد ایک گفتگو میں بر سبیل تذکرہ میرے خاندان کا ایک حوالہ سامنے آیا جس سے وہ واقف تھے تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے میں نے تو آپ کو رشتہ دیتے وقت صرف یہ دیکھا تھا کہ آپ دین کے طالب علم ہیں اور دوسرے یہ کہ آپ میرے حضرت (مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیعؒ) کے ہم نام ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خلوص اور فنا فی الشیخ کے کس درجے میں تھے۔ تعلیم سے فراغت کے فوراً بعد جب شادی کا مرحلہ آیا تو اس وقت چونکہ میرا کراچی میں کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، اس لیے وہ میرے لیے سسر اور باپ دونوں کی جگہ پر تھے، انہوں نے میرے لیے زندگی کے تمام لوازم کا اہتمام کیا اور اس کے بعد بھی آخر دم تک قدم قدم پر مجھے ان کی رہنمائی، دعائیں اور شفقتیں میسر رہیں۔ وہ صرف میرے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے تمام متعلقین اور شاگردوں کے لیے بھی رحمت کا ایک سائبان تھے۔ طلبہ نے بتایا کہ جب امتحان کے دن ہوتے تو ہماری کوشش ہوتی کہ کسی طرح مولانا نعمت اللہ صاحب کی کوئی خدمت کی جائے تاکہ امتحان میں کامیابی کے لیے ان کی دعا حاصل کی جاسکے کیونکہ وہ اس معاملے میں خاص طور پر مستجاب الدعوات مشہور تھے۔
میں اپنے قارئین سے مولانا محمد نعمت اللہؒ کے لیے کامل مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کی درخواست کرتا ہوں۔


شیئر کریں: