Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ماں جی نرالے روپ – خاطرات :امیرجان حقانی

شیئر کریں:

ماں جی کو دیکھتے ہی یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں.بہت سی حسین یادیں ہیں. آج ایک دو کا ذکر ہوجائے. یہ تب کی بات ہے جب ہم گاؤں میں رہتے تھے.تب مجھے پانچ بیٹیوں میں، ماں جی کے اکلوتے بیٹے کا “شرف” حاصل  تھا.

گھر میں جب گوشت پکتا تھا. ہمارے ہاں رواج ہے کہ ہر ایک کو اس کے گوشت کا حصہ الگ الگ ہاتھ میں دیا جاتا ہے. ماں جی اپنے حصے کی بوٹی سنبھال کر رکھتی اور صبح مجھے دے دیتی. تب تو مجھے یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ رات اس نے کھایا ہے یا نہیں مگر اب خوب اندازہ ہوتا ہے کہ ماں جی نے اپنے حصے کی اچھی بوٹی میرے لیے سنبھال کر رکھا تھا. ہماری جوائنٹ فیملی تھی جس میں کسی کے لیے الگ سے رکھنا ممکن نہیں ہوتا. ویسے بھی گوشت نسالو کا ہو اور  سردی کے دونوں میں رات کو پکا کر صبح کھایا جائے تو کمال کا مزہ آتا. صبح جب ماں جی اپنے حصہ کی بوٹی دیتی تو مزے سے کھا جاتا.

کھبی گھر میں مالٹے آتے، یہ سال میں ایک دو دفعہ ہوتا.گاؤں میں یہی ہوتا تھا تب، ماں جی اپنا مالٹا سنبھال رکھتی اور کئی دن بعد اچانک مجھے دیتی.یہی حال کسی ٹافی، بسکٹ یا شہر سے آیا ہوا فروٹ یا سوغات کیساتھ ہوتا.ماں جی بہت دنوں بعد اچانک اپنا حصہ مجھے تھما دیتی. ویسے بھی دیہاتوں میں جوائنٹ فیملیز میں عورتوں کو خوراک پورا نہیں ملتا جو غذائیت کی کمی پورا کرے، ایسے میں جو  عورت اپنا حصہ بچا کر  کسی اور  کو دے، تو وہ عورت صرف اور صرف ماں ہی ہوسکتی ہے. دنیا کی دوسری کوئی عورت ایسی جرات کم کرتی ہے.

پھر جب میں تعلیم کے لئے بڑے شہر سدھار گیا تو ماں جی سال بھر میرے لیے ہر چیز کا اسٹاک کر لیتی. تب ہماری فیملی بھی جوائنٹ نہیں تھی.

گرمیوں میں بنڈی سکھائی جاتی اور جب سردیوں میں گاؤں آتا تو وہ سوکھی بنڈی نسالو کے گوشت کے ساتھ صرف میرے لیے ماں جی پکاتی. صرف میرے لیے الگ پتیلے میں.اور کسی کو پکانے بھی نہیں دیتی. خود ہی پکا لیتی. آج تک ذائقہ یاد ہے. مکئی، دیسی مٹر (بوکک) اور درم کا آٹا الگ سنبھال رکھتی. اور اس کی روٹی خود پکاتی. واہ یار! کیا دور تھا، کتنی محبت تھی، کتنا خلوص تھا.

سردیوں میں کیا جانے والا نسالو کا گوشت گرمیوں تک یا اگلے سال تک میرے لیے سنبھال رکھتی. یہی حال دیسی گھی کے ساتھ ہوتا.

اگر میں سال بعد بھی گھر نہ آتا تو میرا حصہ کراچی پہنچ جاتا، گاؤں کے کسی طالب علم کے ساتھ. 

ہمارا درختوں کا بڑا باغ ہے. خوبانی، بادام، سیپ، خوبانی کی گری، خشک آڑو، شہتوت، انگور، انار، انجنئیر، دیسی بیئر غرض چیز سیزن میں میرے لیے الگ خشک ہوتا. تب میرے دو چھوٹے بھائی بھی تھے. پتہ نہیں ان کے لیے تب یہ اہتمام ہوتا کہ نہیں، مگر میرے لیے لازم تھا.واللہ! گاجر، شلجم، مکئی کے بٹھے، دیسی لوکی (وون)، کچالو، تک میرے لیے الگ رکھا جاتا. اور ہاں چلغوزہ تو بھول ہی گیا.چھانٹی کرکے میرے لیے معیاری چلغوزہ ماں جی الگ کرتی.نانی مرحومہ سے الگ ڈرائی فروٹس لاکر اسٹاک کرتی میرے لیے.

ہاں پھر جب میں بالغ ہوا تو ماں جی نے اپنا زیور بیچ کر تمام رقم میرے حوالے کی تھی. یہ بات والد صاحب کو کئی سال بعد معلوم ہوئی.

بس یار آج اتنا کافی ہے. میری ماں کے میرے لیے ہزاروں روپ ہیں. کس کس کو بیان کروں. اتنی دعا ضرور ہے کہ جس حال میں بھی رکھے مگر اللہ میری ماں کا سایہ دیر تک مجھ پر رکھے. آمین 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56675