Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آریہ سماج مسلم تشخص کے خلاف تاریخی سازش کا پس نظر – منظورقادر خان یوسف زئی

شیئر کریں:


ہندوستان میں مسلمانوں نے جب تقسیم ہند کا مطالبہ کیا اور ہندوؤں کی تمام تر مخالفت کے باوجود دو قومی نظریئے کے تحت الگ مملکت پاکستان قائم کرلی تو اس  وقت سے ہندوشدت پسندوں کی طرف سے مخالفت کا آغاز ہوا جو آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے پہلے جنگ ستمبر 65اور پھر جنگ71کی شکل میں سامنے آچکا ۔ تاریخی حقائق ہیں کہ کہ ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کی مخالفت بلکہ عداوت کا سلسلہ ہزار برس پہلے سے شروع ہوا تھا جو  انہیں اندر ہی اندر بدلے کی آگ میں سلگا رہا تھا کیونکہ ہندوستان پر مسلم حکمرانوں کی حکومت، انہیں تمام تر مراعات اور آزادی کے باوجود قابل قبول نہیں رہی تھی۔ خیال رہے کہ ہزاروں برس قبل ایران کی طرف سے ایک قوم کی شاخیں مغربی دروں کو عبور کرکے ہندوستان میں داخل ہوئی جسے تاریخ میں آریہ ورت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے قدیم قبائلی باشندوں کے مقابلے میں آریہ قوم میں طاقت و قوت زیادہ تھی، آریہ(معزز، بلند مرتبہ) نے بزور طاقت  مقامی لوگ جنہیں یہ داس (غلام)یا تشا(حقیر) اور پشیا جی (کچا گوشت کھانے والے) کہتے تھے، انہیں  جنگلوں اور پہاڑوں کی جانب دھکیل دیا اور باقیوں کو اپنی خدمت کے لئے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا، طبقاتی تفریق کے طور پر انہیں شودر یا اچھوت کا درجہ دے کر معاشرے میں پست ترین مقام دیا۔


آریہ کے بعد متعدد اقوام ہندستان میں حملہ آور کی حیثیت سے آئے اور بیشتر نے اپنی حکومت بھی قائم کیں، تاریخی طور پر تجزیہ کیا جائے تو جو حملہ آور آتا اس کا اپنا ایک قومی تشخص تھا،اپنا جداگانہ نسلی امتیار، اپنی زبان،اپنی ثقافت اور اپنا مذہب بھی تھا، ہندوستان میں جداگانہ تشخص کا تصور نہیں تھا بلکہ حملہ آوروں کے بس جانے کے بعد ان میں ان امتیازات میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور پھر یہ سب کے سب”ہندو“ کہلائے جانے لگے۔لیکن باہر سے آنے والوں میں ایک قوم ایسی تھی جسے ہزار حربوں کے باوجود ختم نہیں کیا جاسکا اور اس نے اپنا جداگانہ تشخص اور امتیاز برقرار رکھا۔یہ قوم مسلمان تھے جن کا تشخص ختم کرنے کے لئے ہزار جتن کئے گئے، حتیٰ کہ ہندو راجاؤں نے مسلمان بادشاہوں کے ساتھ رشتے بھی بنائے اور اپنی لڑکیوں کی شادیاں کیں،حالاں کی ہندو کسی غیر ہندو میں اپنی ذات برداری کے باہر رشتہ نہیں کرتا، ذات تو ایک طرف وہ تو مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد اپنی برداری میں ہی رشتے کو ترجیح دیتا آیا ہے۔قابل غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جب کسی ہندو راجا نے اپنے مذہبی احکام اور نسلی روایات تک کو بالائے طاق رکھ کر مسلمان باشاہوں کو اپنی بیٹیاں دیں تو ان کے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے بھی مسلمان ہی رہے اور ہندو نہ بن سکے۔


یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ انتہا پسند ہندو اس کو آج تک بھلا نہیں سکے بلکہ ان کے شدت پسند اقدامات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ہندو انتہا پسند اپنی تاریخ کو دوہراتے ہوئے اپنے دل میں عداوت، نفرت، حسد اور انتقام کی آگ کو صدیوں سے سلگتے رہے،اوراسے آج بھی بھڑکانے میں شدو مد کے ساتھ مصروف ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی حکومت قریب قریب سارے ہندوستان پر میحط تھی اور جب مغل سلطنت کا زوال شروع ہوا تو ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف نہ رکنے والا سازشوں کا سلسلہ اور تدابیر اختیار کی جانے لگیں۔ مغلیہ سلطنت کے انحطاط پر سب سے پہلے مرہٹوں کو ابھارا گیا اور سیوا جی کو سمرتھ را مداس نے مسلمانوں کے خلاف تیار  کرنے کی حکمت عملی کا آغاز کردیا، لالہ راجپت رائے کی تصنیف کردہ ’سیواجی کی سوانح حیات‘ میں لکھا ہے کہ”سیوا جی کو بار بار اسلا م کے خلاف جنگ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ سیوا جی نے راجہ جے سنگھ کے نام خط میں لکھا کہ میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے، افسوس صد ہزار افسوس کہ یہ تلوار مجھے ایک اور ہی مہم کے لئے میان سے نکالنی پڑی، اسے مسلمانوں کے سر پر بجلی بن کر گرنا چاہے تھا، میری بادلوں کی طرح گرجنے والے فوجیں مسلمانوں پرتلواروں کی وہ بارش برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمان اس سیلاب ِ خون میں بہہ جائیں گے اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہ رہے گا۔(ویر کیشری شواجی مصنف پنڈت نندکمار شرما) سیوا جی اپنی زندگی میں تو اپنے مذموم خواب کو پورا نہ کرسکا، لیکن سمرتھ رامداس نے اس کے بیٹے سنبھاجی کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کا سلسلہ برقرار رکھا۔ اس نے سیواجی کے بیٹے کو کہا کہ  ”آپس میں محبت سے رہو لیکن اپنے مسلمان دشمنوں کو ڈھونڈ کر اپنے راستے سے ہٹادو، لوگوں کے دل میں ان ملچھیوں کا مقابلہ کرنے کا خیال پیدا کرو۔ (تاریخ مہاراشٹر، بھائی ہر مانند)۔


 بغاوت ہند کے بعد مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا، لیکن مسلمانوں نے اپنا جدگانہ تشخص برقرار رکھا، اسے ختم نہ کیا جاسکا، بال گنگا دھرتلک اور سوامی دیا نند سرسوتی (آریہ سماج کا بانی) کا جامع منصوبہ تھا کہ مسلسل اور وسیع پیمانے پراپیگنڈا کے ذریعے ہندوؤں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ کو بھڑکائی جائے اور ہندوؤں کو منظم کرکے ایک متحدہ محاذ کی شکل دے دی جائے، ان کے عزائم اس قدر خطرناک تھے کہ انگریز حکومت کو خود ایک کمیٹی تحقیق کے لئے جسٹس ایس اے ٹی رولٹ کی صدارت میں بنانی پڑی جو رولٹ کمیٹی کے نام سے متعارف ہوئی، اس کمیٹی نے انتہا پسند تنظیم کے عزائم اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو آشکارہ کیا۔


  ہندو انتہا پسندوں کے عزائم میں ہردیا ل کا نام بھی سرفہرست دکھائی دے گا۔13 جون 1925کو شائع ملاپ اخبار میں لالہ ہردیا ل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’جب ہندو قوم میں پورا پورا جوش پیدا ہوجائے گا تو سوراج، شدھی اور افغانستا ن کی فتح کے علاوہ ممکن ہے کہ ہم مشرقی افریقہ، فجی، اور دوسرے ملکوں پر قابض ہوجائیں جہاں ہندو بھائی آباد ہیں، کیونکہ ہم کسی ہندو بھائی کو غلامی کی حالت میں نہیں چھوڑیں گے، بس ہندوستان کو اگر آزادی ملے گی تو یہاں ہندو راج قائم ہوگا،بلکہ مسلمانوں کی شدھی افغانستان کی فتح وغیرہ باقی آردش (نصب العین) بھی پورے ہوجائیں گے۔“ ہندو قوم پرستوں کے انتہا پسند عزائم ہی تھے کہ مسلمانوں کے لئے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا، انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل کا مقصد یہی تھا کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام افراد ہندو، مسلمان وغیرہ سب ایک ”قوم“ ہیں۔ خیال رہے کہ ہندی قومیت کا تصور ان لوگوں (ہندوؤں) کی طرف سے پیش کیا جارہا تھا جن کی زبان میں ’قوم‘کے لئے کوئی لفظ ہی نہیں تھا، ان کے ہاں ’جاتی‘  کا لفظ ہے یعنی ’ذات‘، جو لوگ ورنوں کی رُو سے پیدائشی طور طور پر مختلف ذاتوں میں بٹے ہوئے ہوں۔


 انڈین نیشنل کانگریس اور آریہ سماج مسلمانوں کے تشخص کے خلاف میدان میں تھی۔ جس کا مقصد 26اپریل1925میں اخبار پرکاش لاہور میں شائع اس بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ہندوستان میں سوائے ہندو راج کے دوسرا راج ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا، ایک دن آئے گا کہ ہندوستان کے سب مسلمان شدھ (صاف، پاک)ہو کر آریہ سماج ہوجائیں گے اور اس طرح آخر یہاں ہندو ہی رہ جائیں گے، یہ ہمارا آدرش (نصب العین) ہے، یہی ہماری آشنا (آرزو) ہے، سوامی جی مہاراج نے آریہ سماج کی بنیاد اسی اصول کو لے کر ڈالی تھی۔“ پروفیسر رام دیو نے بھی اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کی ہر مسجد پر آریہ سماج کا جھنڈا بلند کیا جائے گا۔


قیام پاکستان کا ہونا انتہا پسند ہندوؤں کے لئے قابل قبول نہ تھا یہی وجہ تھی کہ گاندھی کو انتہا پسند قوم پرست ہندو نتھو رام نے برلا ہاؤس میں قتل کردیا۔ اکھنڈ بھارت کے لئے سازشوں کا سلسلہ پاکستان کے قیام کے بعد بھی جاری رہا اور کرم خوردہ مملکت کو بکھیرنے کی سازشوں میں ریڈ کلف اوارڈ نے کلیدی کردار ادا کیا، حیدرآباد، جونا گڑھ مناو پر پولیس ایکشن ر اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے، تقسیم ہند کے بعد دسمبر1947میں ہی پاکستان پر حملہ کرنے کے منصوبے بنائے گئے، مشرقی پاکستان میں موجود انتہا پسند ہندوؤں کے مسلسل پراپیگنڈوں نے پہلے65کی جنگ مسلط کی جو ناکام رہی تو نسلی عصبیت کی بنیادپر سازش کرکے 71کی جنگ چھیڑدی گئی۔ اس وقت تک ملکی سیاسی حالات اور نسلی و صوبائی عصبیت اور نا اتفاقی اس عروج پر پہنچ چکی تھی کہ قائد اعظم کے بنائے پاکستان کو دولخت ہونا پڑا اور مشرقی پاکستان کو سقوط ہوگیا۔ اب بھی بار بار بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزیاں اور سازشوں کا مقصد وہی ہے جو قیام پاکستان سے قبل آریہ سماج کے لئے سوراج اور شدھی تحریکوں کی بنیاد رکھی گئی اور آر ایس ایس کے فاشٹ نظریات اور اقدامات نے بھارت میں رہنے والوں مسلمانوں کا جینا بھی حرام کیا ہوا ہے۔ شعائر اسلام کی توہین اور مساجد پر قبضے سمیت مسلمانوں کے نام پر مشتمل شہروں اور جگہوں کے نام تبدیل کرنا مقصد آریہ سماج بنانا مقصود ہے۔  رگ وید کے عہد میں چار ذاتیں براہمن، راجاتیہ، ویشہ، اور شودر، مستقل ذات پات کے نظام کی بنیاد بنی جو آج بھی  بھارت میں نچلی ذاتوں اور اقلیتوں کے لئے عذاب مسلسل ہیں۔ سقوط ڈھاکہ درحقیقت آریہ سماج کا ایجنڈا تھا جسے تکمیل کرنے کے لئے مذموم سازشیں کی گئیں۔


شیئر کریں: