Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

16/17 دسمبر کی درمیانی شب-قادر خان یوسف زئی کے قلم سے۔

شیئر کریں:

غنیمت ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کے نشۂ قوت کی بدمستیوں اور خوش فہمیوں کا پردہ 50 برسوں میں کلی طور پر چاک ہوچکا ہے۔ بنگلادیش بنانے والوں کی فریب کاریوں کے نقاب تاریخ الٹ رہی ہے۔ ثابت ہوچکا کہ بنگلادیش بنانے کے لئے بھارت کے ساتھ مل کر سنگین سازش رچائی گئی۔ بھارت کا سقوط ڈھاکہ میں کلیدی کردار تھا۔ سرکاری و سیاسی سطح پر ہندو انتہاپسندوں کا کھلا اعتراف ثابت کرچکا کہ ملک کا بدترین غدار، انتہائی کینہ توز کے طور پر تاریخ کے سیاہ حرفوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس بدتمیز اور محسن کش نے سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق کہا تھا کہ ’’اگر بھٹو یہ سمجھتا ہے کہ وہ (مجیب) پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق یا واسطہ رکھے گا تو وہ ( بھٹو) دیوانہ ہے۔ اسے پاگل خانے بھیج دینا چاہیے۔‘‘مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کو ’بہاری‘ کہنے والے نے قیامت ڈھائی اور ڈھٹائی کا یہ عالم کہ یہ اعلان کردیاکہ پاکستانی فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کردیا اور پاکستان میں رہنے والے بنگالیوں پر انتہائی مظالم توڑے جارہے ہیں۔

مجیب نے یہ بھی کہا کہ پاکستان بنگلادیش میں بسنے والے 20 لاکھ ’’بہاریوں‘‘ کو سنبھالے اور قریباً چار لاکھ بنگالیوں کو اُدھر بھیج دیا جائے۔ بنگلادیش مملکت بنا تو اس میں بسنے والے شہری غیر بنگالی کیسے ہوگئے۔ درحقیقت ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انگریز و ہندوئوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد، لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا اور قیمتی جان و عزت لٹاکر ہجرت کی تو انہیں صرف اس لئے نکالا جانے لگا کہ وہ بنگالی نسل نہیں، یعنی بنگلادیش میں غیر مسلم بنگالی تو رہ سکتے تھے صرف بنگالی نسل، اس کے علاوہ کسی مسلم غیر بنگالی، جسے بہاری کہا گیا، ان کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، آج   50برسوں بعد بھی انہیں وہ حقوق نہیں ملے جو کسی بنگالی ہندو یا مسلمان کو ملتے ہیں، بہاری قرار دئیے جانے والوں کی کثیر تعداد کو دوسری ہجرت میں بھی قیمتی جان و مال اور عصمت کی قربانیاں دینا پڑیں اور بنگلادیش میں رہنے والے غیر بنگالیوں کو آج بھی شہریت نہ مل سکی۔

بھارتی مصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب ’’ڈیڈ ریکوننگ، میموریز آف دی 1971 بنگلا وار‘‘ میں 71 کی جنگ کے حوالے سے تمام باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’نہ تو اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے تھے، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کے مطابق تھا اور نہ ہی یہ پاکستانی فوجیوں نے کیا تھا۔‘‘ شرمیلا کے مطابق 71 کی جنگ کے حوالے سے جو دستاویزات دیکھنے کو ملیں، وہ اتنی کمزور تھیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی دعویٰ کرنا کسی طرح دانش مندی نہیں۔ بھارتی مصنفہ کی تحقیق کے مطابق ڈھاکا میں 14 اور 15 دسمبر کو آزادی (علیحدگی) کے حامی بنگالی دانشوروں کو ان کے گھروں سے اغوا کیے جانے اور بعد میں قتل کیے جانے میں پاکستانی فوج کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مصنفہ نے مارے جانے والے دانشوروں کے خاندان کے وہ بیانات بھی پیش کیے، جن میں وہ کہتے ہیں کہ ان تمام افراد کو گھروں سے لے جانے والے مسلح سویلین تھے۔ اسی طرح وہ 26-25 مارچ کو ڈھاکا یونیورسٹی کے ویمن ہاسٹل پر پاکستانی فوجی حملے کی تردید کرتی ہیں کہ یہ درست نہیں۔

بھارتی مصنفہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ جیسور میں آزادی (علیحدگی) کے حامی بنگالیوں نے مغربی پاکستانیوں کو مارا تھا، وہ ایسے کئی واقعات کی مثالیں دیتی ہیں۔ ان کے مطابق علیحدگی کے حامی بنگالی مغربی پاکستانی فوجیوں کو انویڈر یا درانداز کہتے تھے جب کہ اس جنگ میں درانداز صرف بھارت تھا۔ شرمیلا برصغیر کے معروف رہنما سبھاش چندر بوس کی پوتی ہیں۔ ان کی اس کتاب نے بھارت اور بنگلادیش کے ان لوگوں کے جھوٹے پراپیگنڈے کا پردہ چاک کیا جو قوم پرستی کا کاروبار کرتے ہیں۔سقوط ڈھاکہ کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی رہتی ہے۔ معروف بھارتی مصنفہ کے حوالہ جات اور مجموعی طور پر پوری کتاب تاریخ ہے، جس کے لئے انہوں نے کافی عرصہ محنت کی اور اس واقعے سے جڑے بنگالی، پاکستانی، بھارتی متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں کیں، اس کے علاوہ بھارتی لیفٹیننٹ جنرل اروڑا نے 30 لاکھ افراد کے مارے جانے کے دعوے کو ناممکن قرار دیا تھا۔ بنگلادیش دعویٰ کرتا ہے کہ 9 ماہ کی جنگ کے دوران 30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا، لیکن حقیقت پسندانہ نظر اس سے بھی لمبی اور تلخ لڑائیوں پر ڈالی جائے تو اس دعوے کی قلعی کھل جاتی ہے۔ 1965 میں امریکی جنگی دستے بڑی تعداد میں ویت نام پہنچے اور 1973 تک رہے، ویت نام میں امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کے علاوہ قریب قریب تمام مہلک ہتھیار استعمال کر ڈالے۔

جنگ میں جنوبی ویت نام کے سب سے زیادہ یعنی 15 لاکھ 81 ہزار باشندے مارے گئے۔ کمبوڈیا کے 7 لاکھ، شمالی ویت نام کے20 لاکھ اور لاؤس کے قریباً 50 ہزار شہری اس جنگ میں مارے گئے۔ شمالی ویت نام اور اس کے اتحادیوں کا کُل جانی نقصان 11 لاکھ 77 ہزار 446 ہوا۔ الجیریا کی ساڑھے7 سالہ جنگ میں ایک لاکھ، افغانستان کی 20 برس کی جنگ میں 2 لاکھ 41 ہزار افراد، سوویت یونین کے ساتھ 14برس کی جنگ میں 20لاکھ افغانی جاں بحق ہوئے، بوسنیا میں مسلمانوں کا تین سال قتل عام کیا گیا، اس میں ایک لاکھ 42 ہزار افرادجاں بحق ہوئے۔ اس پر 9 ماہ میں 30 لاکھ ہلاکتوں کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔بنگلادیش بننے کی تمام وجوہ کو زیر بحث لانا ممکن نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ مشرقی پاکستان سے بنگلادیش بنانے والوں کی سوچ کیا تھی؟ اور کیوں  محب وطن پاکستانی رہنمائوں کو سزائیں دی جارہی ہیں۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت عمل میں لایا گیا، لیکن بعدازاں لسانی معاملے کا جواز بناکر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے عوام میں نفرتیں اور دُوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جنگ کے دوران محب وطن پاکستانیوں کا جو بھی، کسی کا بھی، جیسا بھی کردار ادارہا، وہ سقوط ڈھاکا کو بچانے کے لئے تھا، اسی ضمن میں بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے جو کردار ادا کیا وہ قابل مذمت تھا اور رہے گا، بھارت مسلسل بنگلادیش جیسی صورت حال سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پیدا کررہا ہے۔ صوبائیت ، لسانیت اور قوم پرستی کے اس سیاسی تناظر میں بھارتی سازش کو قطعی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اہل وطن اور ارباب سیاست و دیگر کو ماضی سے سیکھنا ہوگا کہ دشمن کے وار کا گھائو کبھی نہیں بھرتا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
56255